عرضِ مرتِّب
باب اوّل : مُبادیاتِ اِستغاثہ
1۔ لفظِ اِستغاثہ کی لُغوی تحقیق
2۔ اِستغاثہ کی اَقسام
اِستغاثہ بالقول
اِستغاثہ بالعمل
3۔ اِستغاثہ اور توسّل میں باہمی ربط
4۔ اِستغاثہ اور دُعا میں بنیادی فرق
5۔ کلامِ باری تعالیٰ میں لفظِ دُعا کا اِستعمال
النِّدَآءُ
التَّسْمِيَةُ
الإِسْتِغَاثَةُ
الحَثُّ عَلَی الْقَصْدِ
الطَّلَبُ
الدُّعَآءُ
العِبَادَةُ
الخِطَابُ
6۔ دُعا کی خودساختہ تقسیم
دُعائے عبادت
دُعائے سوال
7۔ تقسیم کا مفاد ''مغایرت'' یہاں مفقود ہے
8۔ دُعا سے مُراد محض عبادت کا عدم ثبوت
9۔ سورۂ فاتحہ اور تصوّرِ اِستعانت و اِستغاثہ
باب دُوُم : تاجدارِ اَنبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِستغاثہ کا مفہوم
10۔ اِستغاثہ۔ ۔ ۔ اَحادیثِ مبارکہ اور عملِ صحابہ کی روشنی میں
11۔ سیدنا ابوہُریرہ رضی اللہ عنہ کا اِستغاثہ
12۔ سیدنا قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کا اِستغاثہ
13۔ دُمبل زدہ صحابی رضی اللہ عنہ کا اِستغاثہ
14۔ نابینا صحابی رضی اللہ عنہ کا اِستغاثہ
15۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ کا بارِش کے لئے اِستغاثہ
16۔ سیدنا اَمیر حمزہ رضی اللہ عنہ ۔ ۔ ۔ کاشِفُ الکُرُبات
باب سِوم۔ ۔ ۔ بعد اَز ممات اِستغاثہ کا جواز
17۔ حیاتِ برزخی کا ثبوت
18۔ رُوح کی حیات اور اِستعداد
باب چہارم۔ ۔ ۔ اِزالہءِ اِشکالات
19۔ پہلا اِعتراض۔ ۔ ۔ اِستغاثہ فی نفسہ عبادت ہے
20۔ ہر اِستغاثہ عبادت نہیں ہوتا
21۔ دوسرا اِعتراض۔ ۔ ۔ مافوق الاسباب اُمور میں اِستغاثہ شِرک ہے
22۔ اِعتراض کا علمی محاکمہ
پہلا نکتہ
دُوسرا نکتہ
تیسرا نکتہ
23۔ صحیح اِسلامی عقیدہ
چوتھا نکتہ
24۔ حقیقت و مجاز کی تقسیم لابدّی ہے
25۔ ما فوق الاسباب اُمور میں مجاز کا جواز
26۔ جبرئیل علیہ السلام پرشِرک کا فتویٰ؟
27۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام پر شِرک کا فتویٰ؟
28۔ حقیقی کارساز اﷲ ربّ العزّت ہی ہے
29۔ کیا یہ مُعجزہ نہیں؟
30۔ اﷲ تعالیٰ پر شِرک کا فتویٰ؟
31۔ رُوح پھونکنا درحقیقت فعلِ اِلٰہی ہے
32۔ تیسرا اِعتراض۔ ۔ ۔ اِستغاثہ بالغیر میں سلطہءِ غیبیہ کا شائبہ ہے
33۔ خود ساختہ اِعتقادی فتنے کا ردّ
34۔ ایک وہم کا اِزالہ
35۔ کیا مخلوق کو دُور کا علم ہو سکتا ہے؟
36۔ کشفِ فاروقی
37۔ کشف اور علمِغیب میں فرق
38۔ نبی علیہ السلام کا سوال مسؤل کی قُدرت پر دلیل ہے
39۔ چوتھا اِعتراض۔ ۔ ۔ اﷲ کے سوا کوئی مددگار نہیں
40۔ بُطلانِ اِستدلال
41۔ پانچواں اِعتراض۔ ۔ ۔ سوال اور اِستغاثہ صرف اﷲ سے جائز ہے
42۔ سوال حکمِ باری تعالیٰ ہے
43۔ اور بھی کچھ مانگ
44۔ اِستغاثہ خود حکمِ باری تعالیٰ ہے
45۔ چھٹا اِعتراض۔ ۔ ۔ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِستغاثہ کی نفی
46۔ حدیثِ مبارکہ کا صحیح مفہوم
باب پنجم۔ ۔ ۔ اِیمان اور کفر کے مابین حدِ فاصل
47۔ اِیمان اور کفر کے درمیان نسبتِ مجازی کا لحاظ
48۔ حرفِ آخر
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
اَللہ ربّ العزت خالقِ کائنات ہے، قادرِ مطلق اور حقیقی مُستعان ہے۔ کائناتِ اَرض و سماء میں جاری و ساری
جملہ اَعمال و اِختیارات کا حقیقی مالک وُ ہی ذاتِ حق ہے، جس کے اِذن سے شب و روز کا سلسلہ وُقوع پذیر
ہے۔ وہ اپنی ذات و صفات میں واحد ہے، یکتا ہے، کوئی اُس کا ہمسر نہیں۔ ارب ہا مخلوقات کو زِندگی عطا
کرنے، آنِ واحد میں دی ہوئی حیات کو سلب کرنے اور وسیع و عریض کائناتوں کا نظام چلانے میں، کوئی اُس
کا مددگار اور شریک نہیں۔ تمام جہانوں میں تصرّف کرنے والی اور نظامِ حیات کو روز اَفزُوں رکھنے والی
ذات فقط اَللہ ربّ العزت کی ہے۔ کائنات کے ذرّے ذرّے پر ملکیتِ حقیقی اَللہ تعالیٰ کے سِوا کسی کو حاصل نہیں۔ اَﷲ
کے سوا کوئی کسی شے کا از خود مالک نہیں بن سکتا، اِلاّ یہ کہ وہ خود اُسے مالک بنا دے یا تصرّف سے
نواز دے، حتی کہ اپنی ذات اور چھ فُٹ کے بدن کے اُوپر بھی کسی فردِ بشر کو حقِ ملکیت حاصل نہیں۔ نفع و
ضرر، حیات و ممات اور مرنے کے بعد جی اُٹھنے کا اَز خود کوئی مالک نہیں۔ اَللہ ہی مارتا اور وُہی جِلا
بخشتا ہے۔ ہماری ہر سانس اُسی کے قبضۂ قدرت میں ہے۔
اَحکامِ اِسلام اور قرآنِ حکیم کی اَبدی اور لازوال تعلیمات کی روشنی میں بندے کی طرف نفع و ضرر اور
مِلکیت و تصرّف کی نسبت کرنا محض سبب اور کسب کے اِعتبار سے درست ہے۔ خلق، اِیجاد، تاثیر، علّت اور قوّتِ
مطلقہ کے اِعتبار سے مخلوق کی طرف نفع و ضرر کی نسبت قطعی طور پر درست نہیں۔ اگر ہم بنظرِ غائر
جائزہ لیں تو مخلوق کی طرف موت و حیات، نفع و ضرر، مِلکیت و تصرّف اور اُس کے جملہ کسب کی نسبت حقیقی
نہیں بلکہ مجازی ہوتی ہے اور اِن اُمور میں نسبتِ حقیقی کا حقدار فقط اﷲ ربّ العزت کی ذات ہے۔ اِن
حقائق کو بیان کرنے اور قرآنِ مجید میں وارِد ہونے والی آیاتِ بیّنات سے اِستنباط کرنے میں بعض لوگ
لفظی مُوشگافیوں اور خلطِ مبحث میں اُلجھ کر گوہرِ مقصود سے تہی دامن رہ جاتے ہیں۔ فی زمانہ اُن لوگوں
نے آیاتِ قرآنیہ کے مفاہیم اَخذ کرنے میں حقیقت و مجاز کے درمیان فرق اور اِعتدال کا دامن ہاتھ سے
چھوڑ کر فقط حقیقی معنوں سے اِستدلال لینا درست قرار دے رکھا ہے۔ چنانچہ وہ مجازی معنی کا جواز تک
محلِ نظر سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اَئمۂ اَسلاف کی طرف سے کی گئی تعبیرات و تفسیرات سے رُوگرداں
ہیں اور عقائد کے باب میں تفسیر بالرّائے کے ذریعے بدعاتِ سیئات پیدا کرنے اور قرآن و سنت کی حقیقی
تعلیمات سے ہٹ کر عقائد کو جنم دینے میں مصروف ہیں۔ ایسے میں جب ہم غیرجانبداری سے دیکھیں تو
دُوسری طرف ہمیں لفظی اِشتباہ میں پڑے ہوئے جاہل عوام بھی بکثرت ملتے ہیں جو مجاز کے اِستعمال میں حد
درجہ زیادتی اور غُلو کے قائل ہیں اور اِعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھے ہیں۔ اگرچہ وہ دل سے اللہ ربّ
العزّت کی توحید و تنزیہہ اور دیگر اِسلامی عقائد پر پختگی کے ساتھ قائم ہیں مگر بادیء النظر میں
مجاز کے اِستعمال کی کثرت کے باعث مجازی معنی کے عدم جواز کے قائل گروہ کے ہاں قابلِ دُشنام قرار
پاگئے ہیں۔ حرفِ حق کی تلاش میں نکلنے والے توازن اور اِعتدال کا راستہ اپناتے ہیں۔ حقیقت و مجاز کے
اِستعما ل میں قرآنی اِعتدال کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے تو اِن دونوں اِنتہاؤں میں حائل خلیج کو پاٹ کر
اُمت کو پھر سے جسدِ واحد بنایا جاسکتا ہے۔ یہی وطیرہ دینِ حق کی حفاظت اور مقامِ توحید کی حقیقی
تعبیر و تفہیم کیلئے ضروری و کارآمد ہے۔
عقائدِ اِسلامیہ کی تعبیر وتوجیہہ کے باب میں اَسلاف اَئمۂ کرام میں سے اِمام اِبنِ تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کو
متنازع گردانا جاتا ہے، جبکہ حقیقتِ حال یہ ہے کہ اُن کا عقیدہ نہایت اِعتدال پر مبنی ہے اور اگر
موجودہ دَور میں اُس کی کما حقّہ غیرجانبدارانہ تعبیر و تشہیر کی جائے تو کچھ بعید نہیں کہ دونوں
اِنتہاؤں پر جا پہنچنے والے مسالِک کو باہم قریب کیا جا سکے۔ سرِدست صورتحال کچھ یوں ہے کہ عقائدِ
اِسلامیہ میں اپنی کج فہمی کی بناء پر بِدعات داخل کرنے والا گروہ اِمام اِبنِ تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی
تعلیمات کا مَن گھڑت تصوّر پیش کر کے اُن سے اپنے خود ساختہ عقائد کی بے جا تائید حاصل کر رہا ہے
جبکہ صحیح اِسلامی عقیدے پر کاربند کم پڑھے لکھے اَفرادِ اُمت حقائق سے عدم آگہی کے باعث اِمام اِبن
تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کو غیراِسلامی عقیدے کا حامل سمجھنے لگ گئے ہیں۔
اِمام اِبن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا عقیدہ جمہور اہلِ اسلام کا عقیدہ ہے، اور وہ یہ کہ ''اللہ ربّ العزّت ایک
ہے، اُس کا کوئی ثانی نہیں۔ فقط اُسی کی عبادت رَوا ہے، اُسی سے دُعا کرنی چاہئیے اور اُسی کو حقیقی
مُستعان سمجھنا چاہئیے۔ اُسی کی ذات پر بھروسہ کرنا چاہئیے اور مشکل وقت میں اُسی سے مدد مانگنی
چاہئیے۔ غیراللہ کو مددگارِ حقیقی سمجھنا اِسلام کے دائرے سے خروج کے مُترادِف ہے۔ فقط اللہ نیکی کی توفیق سے
نوازتا اور گناہوں کو معاف کرنے پر قُدرت رکھتا ہے۔ اُس کے علاوہ کوئی اَز خود کسی کو گناہ سے روک
سکتا ہے اور نہ نیکی کی توفیق دے سکتا ہے۔ اَنبیاءے کرام اور اَولیاء اﷲ سے مدد صرف اُنہیں مستعانِ
مجازی مانتے ہوئے ہی جائز ہے''۔ یہی عین اِسلامی عقیدہ ہے اور اِس سے سرِمُو اِنحراف عقائدِ باطلہ کی طرف
رُجحان کا باعث ہو گا۔
لفظِ استغاثہ کی لُغوی تحقیق
لفظِ استغاثہ کا مادۂ اِشتقاق ''غ، و، ث'' (غوث) ہے، جس کا معنی ''مدد'' کے ہیں۔ اِسی سے اِستغاثہ بنا
ہے، جس کا مطلب ''مدد طلب کرنا'' ہے۔ اِمام راغب اِصفہانی رحمۃ اللہ علیہ اِستغاثہ کا لُغوی معنی و مفہوم
بیان کرتے ہوئے یوں رقمطراز ہیں :
الغَوثُ : يقال فی النُّصرةِ، و الغَيثُ : فی المطرِ، واستغثته : طلبت الغوث أو الغيث.
غَوث کے معنی ''مدد'' اور غَیث کے معنی ''بارش'' کے ہیں اور استغاثہ کے معنی کسی کو مدد کے لئے
پکارنے یا اللہ تعالی سے بارش طلب کرنے کے ہیں۔
(المفردات : 617)
لفظِ استغاثہ کا اِستعمال قرآنِ مجید میں بھی متعدّد مقامات پر ہوا ہے۔ غزوۂ بدر کے موقع پر صحابۂ
کرام کی اﷲ ربّ العزت کے حضور فریاد کا ذکر سورۂ انفال میں یوں وارِد ہوا ہے :
اذْ تَسْتَغِيْثُونَ رَبَّکُمْ.
جب تم اپنے ربّ سے (مدد کے لئے) فریاد کررہے تھے۔
(الانفال، 8 : 9)
سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے اُن کی قوم کے ایک فرد کا مدد مانگنا اور آپ کا اُس کی مدد کرنا، اِس واقعے
کو بھی قرآنِ مجید نے لفظِ استغاثہ ہی کے ساتھ ذِکر کیا ہے۔ سورۂ قصص میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :
فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِيْ مِنْ شِيْعَتِهِ عَلَی الَّذِيْ مِنْ عَدُوِّه.
تو جو شخص اُن کی قوم میں سے تھا اس نے دوسرے شخص کے مقابلے میں جو موسیٰ کے دُشمنوں میں سے تھا موسیٰ
سے مدد طلب کی۔
(القصص، 28 : 15)
اَہلِ لُغت کے نزدیک استغاثہ اور استعانت دونوں اَلفاظ مدد طلب کرنے کے معنی میں آتے ہیں۔ اِمام راغب
اِصفہانی رحمۃ اللہ علیہ لفظِ استعانت کا مفہوم بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :
وَ الْاسْتِعَانَةُ : طَلَبُ الْعَوْنِ.
اِستعانت کا معنی مدد طلب کرنا ہے۔
(المفردات : 598)
لفظِ استعانت بھی قرآنِ مجید میں طلبِ عون کے معنی میں اِستعمال ہوا ہے۔ سورۂ فاتحہ میں بندوں کو آدابِ
دُعا سکھاتے ہوئے قرآنِ مجید فرماتا ہے :
ايَّاکَ نَسْتَعِيْنُo
اور ہم تجھی سے مدد چاہتے ہیںo
(فاتحه، 1 : 4)
اِستغاثہ کی اَقسام
عرب اَہلِ لُغت اور مفسرینِ قرآن کی تصریحات کے مطابق اِستغاثہ کا معنی مدد طلب کرنا ہے۔ جس کی دو
صورتیں ہوسکتی ہیں :
1۔ استغاثہ بالقول
2۔ استغاثہ بالعمل
مُشکل حالات میں گِھرا ہوا کوئی شخص اگر اپنی زبان سے اَلفاظ و کلمات اَدا کرتے ہوئے کسی سے مدد طلب
کرے تو اِسے اِستغاثہ بالقول کہتے ہیں اور مدد مانگنے والا اپنی حالت و عمل اور زبانِ حال سے مدد چاہے
تو اِسے اِستغاثہ بالعمل کہیں گے۔
اِستغاثہ بالقول
قرآن مجید میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ کے حوالے سے اِستغاثہ بالقول کی مثال یوں مذکور ہے :
وَ أَوْحَيْنَآ الٰی موسیٰ اذِ اسْتَسْقٰهُ قَوْمُه أَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْحَجَرَ.
اور ہم نے موسیٰ کے پاس (یہ) وحی بھیجی جب اس سے اس کی قوم نے پانی مانگا کہ اپنا عصا پتھر پر
مارو۔
(الاعراف، 7 : 160)
اِسلام دینِ فطرت ہے اور سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر نبیء آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک تمام
انبیاء کا دِین ہے۔ عقیدۂ توحید تمام انبیاء کی شرائع میں بنیادی اور یکساں اہمیت کا حامل ہے۔
شریعتِ مصطفوی سمیت کسی بھی شریعت کی تعلیمات کے مطابق اَللہ ربّ العزّت کے سِوا مددگارِ حقیقی کوئی نہیں،
جبکہ اِس آیتِ مبارکہ میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے پانی کا اِستغاثہ کیا گیا ہے۔ اگر یہ عمل شِرک
ہوتا تو اِس مطالبۂ شِرک پر مبنی معجزہ نہ دکھایا جاتا، کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کبھی
اَنبیائے کرام علیہم السلام سے خلافِ توحید کوئی مطالبہ کیا گیا تو اُنہوں نے شِرک کی تمام تر راہیں
مسدُود کرنے کے لئے اُس سے منع فرمایا۔ دُوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ مذکورۃُ الصّدر آیتِ کریمہ میں اَللہ
تعالیٰ قومِ موسیٰ کے اِستغاثہ پر خود سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو اِظہارِ معجزہ کی تاکید فرما رہا ہے۔ اِس
کا مطلب یہ ہوا کہ حقیقی کارساز تو بلا ریب میں ہی ہوں مگر اے موسیٰ علیک السلام! میں اِظہارِ معجزہ کے
لئے اپنے اِختیارات تمہیں تفویض کرتا ہوں۔
اِستغاثہ بالعمل
مصیبت کے وقت زبان سے کسی قسم کے اَلفاظ ادا کئے بغیر کسی خاص عمل اور زبانِ حال سے مدد طلب کرنا
استغاثہ بالعمل کہلاتا ہے۔ قرآنِ مجید میں اِستغاثہ بالعمل کے جواز میں بھی اﷲ تعالیٰ کے محبوب و مکرم
انبیاء علیہم السلام کا واقعہ مذکور ہے۔ سیدنا یوسف علیہ السلام کی جُدائی میں اُن کے والدِ ماجد سیدنا
یعقوب علیہ السلام کی بینائی کثرتِ گریہ کی وجہ سے جاتی رہی۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو جب حقیقتِ حال
سے آگاہی ہوئی تو اُنہوں نے اپنی قمیض بھائیوں کے ہاتھ والدِ ماجد سیدنا یعقوب علیہ السلام کی طرف
بغرضِ اِستغاثہ بھیجی اور فرمایا کہ اِس قمیض کو والد گرامی کی آنکھوں سے مَس کرنا، بینائی لوٹ آئے
گی، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اِس واقعہ کا ذکر اَﷲ ربّ العزّت نے کلامِ مجید میں کچھ اِن الفاظ میں کیا ہے :
اذْهَبُوْا بِقَمِيْصِيْ هٰذَا فَأَلْقُوْهُ عَلٰی وَجْهِ أَبِيْ يَأْتِ بَصِيْراً.
میری یہ قمیض لے جاؤ، سو اسے میرے باپ کے چہرے پر ڈال دینا وہ بینا ہو جائیں گے۔
(يوسف، 12 : 93)
حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے جب وہ قمیض لے جا کر سیدنا یعقوب علیہ السلام کی آنکھوں سے مَس
کی تو وہ فی الحقیقت مشیّتِ اَیزدی سے بینا ہو گئے۔ قرآنِ مجید میں ہے :
فَلَمَّآ أَنْ جَآءَ الْبَشِيْرُ أَلْقَاهُ عَلٰی وَجْهِه فَارْتَدَّ بَصِيْراً.
پھر جب خوشخبری سنانے والا آ پہنچا اس نے وہ قمیص یعقوب علیہ السلام کے چہرے پر ڈال دیا تو اسی وقت
ان کی بینائی لوٹ آئی۔
(يوسف، 12 : 96)
اَﷲ ربّ العزت کے برگزیدہ پیغمبر سیدنا یعقوب علیہ السلام کا عملِ مبارک جس سے اُن کی بینائی لوٹ آئی،
عملی طور پر حضرت یوسف علیہ السلام کی قمیض سے اِستغاثہ ہے۔ یہ اِستغاثہ بالعمل کی بہترین قرآنی مثال
ہے، جس میں سیدنا یوسف علیہ السلام کی قمیض اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے حصولِ بینائی کا وسیلہ و ذرِیعہ
بنی۔
اِستغاثہ اور توسّل میں باہمی ربط
اِستغاثہ اور توسل دونوں میں فی الحقیقت ایک ہی شئے مطلوب ہوتی ہے اور اِن کے مابین فرق محض فعل کی
نسبت میں ہے۔ جب فعل کی نسبت مدد طلب کرنے والے کی طرف کی جائے تو اُس شخص کا یہ عمل اِستغاثہ کہلائے
گا، اور مُستغاثِ مجازی (جس سے مدد طلب کی جا رہی ہے) بحیثیت ''وسیلہ'' و ''ذریعہ'' ہوگا، کیونکہ
مستغاثِ حقیقی باری تعالیٰ ہے۔ پس حضرت یعقوب علیہ السلام کا عمل اِستغاثہ اور قمیض وسیلہ ہے۔ اِس کے
برعکس جب براہِ راست اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتے ہوئے اُس سے اِستغاثہ کیا جاتا ہے تواﷲ ربّ العزّت کی بارگاہ
سے بڑی چونکہ کوئی بارگاہ نہیں اِس لئے وہ وسیلہ کی بجائے حقیقی مستغاث قرار پاتا ہے۔ مختصر یہ کہ
مذکورہ قرآنی بیان میں اِستغاثہ بالعمل سنتِ اَنبیاء سے ثابت ہے۔ (عقیدۂ توسل پر سیر حاصل بحث کے
مطالعہ کے لئے راقم کی کتاب ''قرآن و سنت اور عقیدۂ توسل'' ملاحظہ فرمائیں)۔
اِستغاثہ اور دُعا میں بنیادی فرق
دُکھ، درد اور تکلیف میں کسی سے مدد طلب کرنا اِستغاثہ کہلاتا ہے، جبکہ مطلقاً پُکارنا دُعا کہلاتا ہے،
اِس میں دُکھ، درد، مصیبت اور تکلیف کی شرط نہیں۔ دُعا اور اِستغاثہ میں عموم و خصوص مطلق کی نسبت ہے،
کیونکہ دُعا مطلق پکارنے کو کہتے ہیں جبکہ اِستغاثہ کے لئے شرط ہے کہ مصیبت یا تکلیف میں پکاراجائے،
اِس لئے ہر اِستغاثہ تو دُعا ہے لیکن ہر دُعا اِستغاثہ نہیں ہے۔ اِستغاثہ اور دُعا میں یہی بنیادی فرق
ہے۔
کلامِ باری تعالیٰ میں لفظِ دُعا کا اِستعمال
دعا، یدعو، دعوۃً کا معنی بلانا اور پکارنا ہے۔ قرآنِ حکیم میں ''دعا'' کا مادہ متعدّد معانی میں
اِستعمال ہوا ہے۔ ذیل میں دُعا کا قرآنی تصوّر واضح کرنے کے لئے اُن میں سے چند اہم معانی کا ذِکر کیا
جا رہا ہے :
1. النِّدَآءُ
قرآنِ مجید میں لفظِ دُعا، نداء کے معنی میں عام اِستعمال ہوا ہے اور کبھی نداء اور دُعا باہم ایک
دوسرے کی جگہ بھی اِستعمال ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر قرآن مجید میں ہے :
وَ مَثَلُ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا کَمَثَلِ الَّذِيْ يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ الَّا دُعَآءً وَّ نِدَآءً.
اور ان کافروں (کو ہدایت کی طرف بلانے) کی مثال ایسے شخص کی سی ہے جو کسی ایسے (جانور) کو پکارے جو
سوائے پکار اور آواز کے کچھ نہیں سنتا۔
(البقره، 2 : 171)
2. التَّسْمِيَةُ
لُغتِ عرب میں بعض اَوقات لفظِ دُعا تسمیہ یعنی نام رکھنے یا پکارنے کے معنی میں بھی اِستعمال ہوتا ہے۔
جیسا کہ اِمام راغب اِصفہانی رحمۃ اللہ علیہ مثال پیش فرماتے ہیں :
دَعوتُ ابْنی زَيداً.
میں نے اپنے بیٹے کا نام زید رکھا۔
(المفردات : 315)
اِسی طرح قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب و تعظیم پر رَغبت دلاتے ہوئے
فرمایا :
لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَيْنَکُمْ کَدُعَآءِ بَعْضِکُمْ بَعْضاً.
(النور، 24 : 63)
(اَے مسلمانو!) تم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کو (نام لے کر) بلانے کی
مثل قرار نہ دو۔
اِس آیتِ کریمہ میں خود اﷲ تعالیٰ نے بارگاہِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب بیان فرمایا ہے۔ پس
ہمیں چاہیئے کہ تاجدارِ انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کبھی بھی اُن کا اسمِ مبارک ''محمد'' کہہ کر
نہ پکاریں بلکہ جب بھی بلانا مقصود ہو یا رسولَ اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم اور یا حبیبَ اﷲ صلی اﷲ علیک
وسلم جیسے اَلقابات سے پکارا کریں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ربِّ کائنات ہونے کے باوجود پورے قرآنِ مجید
میں کسی ایک مقام پر بھی سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ''یا محمد صلی اﷲ علیک وسلم'' کہہ
کر مخاطب نہیں کیا۔
3. الِاسْتِغَاثَةُ
لفظِ ''دُعا'' قرآنِ مجید میں بعض مقامات پر سوال اور مدد طلب کرنے کے معنی میں بھی اِستعمال ہوا ہے،
جیسا کہ اِرشادِ ربانی ہے :
وَ قَالُوْا ادْعُ لَنَا رَبَّکَ.
اور اُنھوں نے کہا آپ ہمارے لئے اپنے ربّ سے دُعا کریں۔
(البقرة، 2 : 68)
4. الحَثُّ عَلَی الْقَصْدِ
لفظِ ''دُعا '' کا اِستعمال بعض اَوقات کسی چیز کے قصد پر رغبت دِلانے اور اکسانے کے لئے بھی کیا جاتا
ہے۔ قرآن مجید میں اِس کی مثال یوں ہے :
قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ الَيَ مِمَّا يَدْعُوْنَنِی الَيْهِ.
یوسف علیہ السلام نے(سب کی باتیں سن کر) عرض کیا اے میرے ربّ مجھے قید خانہ اس کام سے کہیں زیادہ
محبوب ہے جسکی طرف یہ مجھے بلاتی ہیں۔
(يوسف، 12 : 33)
مرغوب اشیاء کی طرف رغبت دِلانے کے معنی میںقرآنِ مجید میں لفظِ دُعا کا اِستعمال سورۂ یونس میں اِس طرح
ہوا ہے :
وَ اﷲُ يَدْعُوْا الٰی دَارِالسَّلَامِ.
اور اللہ (لوگوں کو) سلامتی کے گھر (جنت) کی طرف بلاتا ہے۔
(يونس، 10 : 25)
5. الطَّلَبُ
طلب کے معنی میںلفظِ دُعا کا اِستعمال لغتِ عرب میں بکثرت ہوتا ہے۔ قرآنِ مجید میں اِس کی مثال یوں ہے :
وَ لَکُمْ فِيْهَا مَا تَدَّعُوْنَo
اور تمہارے لئے وہ سب کچھ بھی موجود ہے جو تم مانگو گےo
(حم السجدة، 41 : 31)
6. الدُّعَآءُ
لفظِ دُعا کبھی اﷲ ربّ العزت سے کی جانے والی دُعا کے معنی میں بھی اِستعمال ہوتا ہے۔ قرآنِ مجید میں اﷲ
تعالیٰ کے برگزیدہ اَفراد کی دُعا یوں مذکور ہے :
وَ آخِرُ دَعْوَاهُمْ أَنِ الْحَمْدُ ﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَo
اور اُن کی دُعا (اِن کلمات پر) ختم ہوگی کہ ''تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو سب جہانوں کا
پروردگار ہے''o
(يونس، 10 : 10)
7. العِبَادَة
اﷲ تعالیٰ کی عبادت کو بھی دُعا کہا جاتا ہے، جیسا کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِرشادِ
گرامی ہے :
الدُّعَآءُ هُوَ الْعِبَادَةُ.
دُعا عین عبادت ہے۔
(جامع الترمذی، اَبواب الدعوات، 2 : 173)
8. الخِطَابُ
لفظِ دُعا کی مذکورۃ الصدر اَقسام کے علاوہ کبھی اِسے مطلقاً خطاب کے لئے بھی اِستعمال کیا جاتا ہے۔ غزوۂ
اُحد کے موقع پر جب دورانِ جنگ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قدم اُکھڑ گئے اور وہ منتشر ہوکر
جنگ کرنے لگے اور صرف ایک مختصر جماعت تاجدارِ ختمِ نبوّت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِرد گِرد رَہ گئی،
تو اُس موقع پر جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دُور ہٹ کر بکھر گئے تھے، مالکِ کون و مکاں صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں اپنی طرف بلایا۔ محبوبِ کبریا کے اِس رحمت بھرے خطاب کو قرآنِ مجید نے یوں
بیان کیاہے :
اذْ تُصْعِدُوْنَ وَ لَا تَلْونَ عَلٰی أَحَدٍ وَ الرَّسُوْلُ يَدْعُوْکُمْ فِيْ أُخْٰرکُمْ.
جب تم (اَفراتفری کی حالت میں) بھاگے جا رہے تھے اور کسی کو مڑ کر نہیں دیکھتے تھے اور رسول (صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم) اُس جماعت میں (کھڑے) جو تمہارے پیچھے (ثابت قدم) رہی تھی تمہیں پکار رہے تھے۔
(آل عمران، 3 : 153)
اِس آیۂ کریمہ میں مذکور لفظ ''يَدْعُوْکُمْ'' یعنی رسول تمہیں خطاب کر رہے تھے کا مطلب دُعائے عبادت ہرگز
ہرگز قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ قصرِ نبوت کے (معاذ اللہ) شرک کی آمیزشوں میں ملوّث ہونے کا تصوّر بھی
ممکن نہیں۔
دُعا کی خودساختہ تقسیم
قرآنِ مجید میں مستعمل اَقسامِ دُعا کے تفصیلی ذِکر کے بعد اَب ہم اِس اَمر کا جائزہ لیتے ہیں کہ کچھ لوگ
اِستغاثہ و توسّل کو غیرشرعی ثابت کرنے کے لئے دُعا کی ایک خودساختہ تقسیم کرتے ہیں حالانکہ اُن کے پاس
نفیءِ اِستغاثہ پر قرآنِ مجید کی کوئی ایک آیت بھی بطور دلیل موجود نہیں۔ اُن کے تمام مفروضات کی
بنیاد عقلی مُوشگافیاں ہیں، جو بذاتِ خود عقلِ ناقص کی پیداوار ہیں۔ اِستغاثہ کو شِرک قرار دینے کے لئے
پہلے اسے دُعا کا مفہوم پہنایا جاتا ہے اور پھر دُعا کی دو خود ساختہ قسمیں کر دی جاتی ہیں :
1۔ دُعائے عبادت
2۔ دُعائے سوال
1۔ دُعائے عبادت
دُعا کی پہلی قسم عبادت ہے اور اﷲ ربّ العزت کی تمام عبادات مختلف انداز رکھنے والی دعائیں ہیں۔
جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
أَلدُّعَآءُ مُخُّ الْعِبَادَة.
دُعا عبادت کا نچوڑ (مغز ) ہے۔
(جامع الترمذی، اَبواب الدّعوات، 2 : 173)
جبکہ جامع ترمذی ہی میں مروی ایک اور حدیثِ مبارکہ میں دُعا کو عینِ عبادت قرار دیا گیا ہے :
أَلدُّعَآءُ هُوَ الْعِبَادَةُ.
دُعا عینِ عبادت ہے۔
(جامع الترمذی، اَبواب الدعوات، 2 : 173)
عبادت صرف اﷲ ربّ العزّت ہی کی رَوا ہے، لہٰذا اُن کا خیال ہے کہ اِس معنی کی رُو سے غیراﷲ سے کی جانے
والی دُعا اُس کی عبادت قرار پانے کی وجہ سے شِرک کا موجب قرار پائی۔
2۔ دُعائے سوال
کسی سے سوال کرنا، کسی کو مشکل کشا ماننا اور اُس کے سامنے دستِ طلب دراز کرنا دُعائے سوال کہلاتا ہے۔
اِس مقام پر یہ اِعتراض کیا جاتا ہے کہ مشکل کشا چونکہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے لہٰذا سوال بھی فقط اُسی
سے کیا جا سکتا ہے۔ سائل کا سوال چونکہ اپنی عبدیت کا اِعتراف ہوتا ہے، اِس لئے غیراللہ سے سوال کرنا
اُس کا بندہ بننے کے مترادف ہے اور وہ شِرک ہے۔ اِس لئے بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ سائل من دون اﷲ
مشرک ہے۔
تقسیم کا مفاد ''مغایرت'' یہاں مفقود ہے
دُعا کی مذکورہ بالا تقسیم جواز و عدم جوازِ اِستغاثہ کے نقطۂ نظر سے اِستغاثہ کے عدم جواز کے قائل
گروہ کے لئے بھی غیرضروری ہے، کیونکہ دُعائے عبادت اور دُعائے سوال کو ایک ہی مفہوم دے کر تقسیم کی
اِفادیت ضائع کر دی گئی ہے، یوں دُعائے سوال کو بھی گویا دُعائے عبادت میں داخل کر دیا گیا ہے۔ جب
دُعائے عبادت غیراللہ کے لئے رَوا نہیں اور دُعائے سوال بھی غیراللہ سے کرنا شِرک ٹھہرا تو دُعا کی اِن دونوں
قسموں میں فرق کیا رہا؟ دَرحقیقت اِس تقسیم کی قطعاًکوئی ضرورت نہ تھی۔ تقسیم کی اِفادیت تو تب ثابت
ہوتی جب دونوں اَقسام پر مختلف نوعیت کے اَحکام مرتّب ہوتے۔ کسی بھی تقسیم کے تحت آنے والی اقسام اگر
اپنا جدا جدا حکم نہ رکھیں تو ایسی تقسیم بے فائدہ ہوکر رہ جاتی ہے۔ اِس بات کو ہم ایک سادہ مثال
کے ذریعے واضح کرتے ہیں :
مثال : سجدے کی دو اَقسام ہیں :
1۔ سجدۂ عبادت
2۔ سجدۂ تعظیم
سجدے کی اِن دو اقسام میں سجدۂ تعظیم، سجدۂ عبادت میں شامل نہیں ہوتا، اگر داخل کریں گے تو بُطلان
لازِم آتا ہے۔ علاوہ ازیں دونوں میں حکمی اِعتبار سے بھی بڑا فرق ہے۔ اگر کسی بندے کے سامنے عبادت کی
نیّت سے سجدہ کیا جائے تو یہ اِرتِکابِ شِرک ہوگا اور اگر محض تعظیم کی خاطر سجدہ کیا جائے تو یہ شِرک
قرار نہیں پائے گا بلکہ اِس فعل پر حرام کا حکم لگایا جائے گا۔
دُوسری مثال : اِسی طرح ایک اور مثال دیکھئے : کلمہ کی تین قسمیں ہیں۔ اِسم، فعل اور حرف۔ یہ تینوں
آپس میں مغایر ہیں اور اِن کا آپس میں ضم کرنا کسی صور ت بھی درست نہیں ہوسکتا۔
دُعا سے مُراد محض عبادت کا عدم ثبوت
اَب رہی یہ بات کہ لفظِ دُعا صرف دو معنوں میں اِستعمال ہوتا ہے، تو یہ بھی ہرگز درست نہیں کیونکہ دُعا
کے آٹھ معانی آپ سطورِ بالا میں تفصیل سے پڑھ چکے ہیں۔ اگر دُعا کا مقصد صرف عبادت لیا جائے اور
دُعائے سوال کو بھی دُعائے عبادت میں داخل کر دیا جائے تو سارا معاشرہ شِرک کی دلدل میں دھنس جائے گا
اور انبیائے کرام بھی معاذاﷲ اُس دلدل سے نہیں بچ سکیں گے۔ واضح رہے کہ دُعا (پکارنا) ہر جگہ عبادت
کے معنی میں مستعمل نہیں، بصورت دیگر کسی کی عصمت شِرک کی آلائشوں سے محفوظ نظر نہیں آتی۔ کیونکہ
خود نصِ قرآنی اِس پر شاہد ہے کہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی غیراللہ کو پکارا اور خود
قرآن آپس میں ایک دوسرے کو مدد کے لئے پکارنے کی اِجازت دے رہا ہے۔ اور اگر بفرضِ محال ہر جگہ دعا،
یدعو، تدعو، ندعوا کا معنی صرف دُعائے عبادت یا دُعائے سوال (جو بعض حضرات کے ہاں عبادت ہی کی ایک
ذیلی صورت ہے) ہی قرار دینے پر اِصرار کیا جائے تو مندرجہ ذیل چند آیات کی کیا توجیہہ پیش کی جائے
گی :
1. يَا قَوْمِ مَا لِيْ أَدْعُوْکُمْ الَی النَّجَاةِ وَ تَدْعُوْنَنِيْ الَی النَّارِo
اے میری قوم یہ کیا ہے کہ میں تم کو (راہ) نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے دوزخ کی طرف دعوت
دیتے ہوo
(مومن، 40 : 41)
2. قَالَ رَبِّ انِّيْ دَعَوْتُ قَوْمِيْ لَيْلًا وَّ نَهَاراًo فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعَآئِيْ الَّا فِرَاراًo
عرض کیا اے میرے رب! میں اپنی قوم کو رات دن ( دینِ حق کی طرف) بلاتا رہاo لیکن میرے بلانے سے وہ
(دین سے) اور زیادہ بھاگنے لگےo
(نوح، 71 : 5، 6)
3. وَ اﷲُ يَدْعُوْ الٰی دَارِ السَّلٰمِ.
اور اللہ سلامتی کے گھر (جنت) کی طرف بلاتاہے۔
(يونس، 10 : 25)
4. أُدْعُوْهُمْ لِأَبَآئِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اﷲِ.
ان (متبنّی بیٹوں ) کو ان کے باپوں کی طرف (نسبت) کر کے پکارا کرو، یہی اللہ کے نزدیک درست بات ہے۔
(الاحزاب 33 : 5)
5. فَلْيَدْعُ نَادِيُهo سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَo
پس وہ اپنے ہم نشینوں کو (مدد کیلئے) بلالےo ہم بھی عنقریب (اپنے) سپاہیوں کو بلالیں گےo
(العلق، 96 : 17، 18)
6. فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَهُمْ.
سو وہ انہیں بلائیں گے مگر وہ انہیں کوئی جواب نہ دیں گے۔
(الکهف، 18 : 52)
7. يَوْمَ نَدْعُوْا کُلَّ أُنَاسِمْ بِامَامِهِمْ.
جب ہم لوگوں کے ہر طبقہ کو ان کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے۔
(بنی اسرائيل، 17 : 71)
8. وَ انْ تَدْعُهُمْ الَی الْهُدٰی.
اور اگر آپ انھیں ہدایت کی طرف بلائیں۔
(الکهف، 18 : 57)
سورۂ فاتحہ اور تصورِ اِستعانت و اِستغاثہ
سورۂ فاتحہ میں جہاں اِسلام کے اور بہت سے عقائد و تعلیمات کے تصوّر کو واضح کیا گیا ہے وہاں تصوّرِ
اِستغاثہ کو بھی بڑے دلنشیں انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اِرشادِ ربانی ہے :
ايَاکَ نَعْبُدُ وَ ايَاکَ نَسْتَعِيْنُo
(الفاتحه، 1 : 4)
اے اﷲ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیںo
یہی آیت مبارکہ مسئلہ اِستعانت و اِستغاثہ کی بنیاد ہے جس میں عبادت اور اِستعانت کو یکے بعد دیگرے
ذِکر کیا گیا ہے۔ آیتِ کریمہ کا پہلا حصہ ''ايَاکَ نَعْبُدُ'' اِسلام کے تصوّرِ عبادت پر مشتمل ہے اور دُوسرا
حصہ ''ايَاکَ نَسْتَعِيْنُ'' تصوّرِ اِستعانت کو واضح کرتا ہے۔ یہی وہ آیتِ مبارکہ ہے جس کے سطحی مطالعہ سے
حاصل ہونے والے باطل اِستنباط کے ذریعے کچھ لوگ جمیع امتِ مسلمہ پر شِرک کا فتویٰ لگانے کا آغاز کرتے
ہیں۔
دراصل اِس آیت کے سطحی مطالعہ سے اُن کے ذِہنوں میں یہ خیال جنم لیتا ہے کہ آیت کے دونوں حصے ایک
جیسے اَلفاظ پر مشتمل ہیں۔ پہلے حصے میں عبادت کا ذِکر ہے جو محض اﷲ ربّ العزّت کے لئے خاص ہے، تو
دُوسرے حصے میں اِستعانت مذکور ہے۔ ایک جیسے اَلفاظ کے استعمال کی وجہ سے ایک سے اَحکام کا حاصل ہونا
ایک بدیہی سی بات ہے۔ یوں وہ لوگ اِس سطحی اِستدلال کے ذریعے یہاں دھوکہ کھا جاتے ہیں اور اِستعانت و
اِستغاثہ کو بھی عبادت کی طرح فقط اﷲ ربّ العزّت کے ساتھ مختص قرار دینے لگتے ہیں۔
اگر ہم بنظرِ غائر اِس آیتِ کریمہ کا مطالعہ کریں تو صورتحال یکسر مختلف نظر آتی ہے۔ ایک جیسے اَلفاظ
کا وُرود بجا مگر آیت کے دونوں حصوں کے درمیان حرفِ عطف واؤ کا پایا جانا بھی کسی حقیقت کا غماز ہے!
اگر عبادت و اِستعانت کا حکم ایک ہی ہوتا تو اِن دونوں جملوں کے درمیان اﷲ تعالیٰ کبھی بھی ''واؤ''
کا اِضافہ نہ کرتا۔ اِس واؤ کے لانے سے ہی ما قبل اور ما بعد میں مغایرت ظاہر ہو رہی ہے۔ دو جملوں کے
درمیان پائے جانے والے حرفِ مغایرت کی وجہ سے دونوں جملوں کے اَحکام جدا جدا ہوتے ہیں۔ اگر ''إِيَّاكَ
نَسْتَعِينُ'' میں طلبِِ عون سے مراد عبادتِ خداوندی ہوتی تو قرآنِ مجید اُسے واؤ عاطفہ کے ذریعے ''إِيَّاكَ
نَعْبُدُ'' سے جدا نہ کرتا۔ حرفِ مغایرت واؤ کا اِستعمال یہ بتا رہا ہے کہ ''إِيَّاكَ نَعْبُدُ'' اور ''إِيَّاكَ
نَسْتَعِينُ'' دونوں الگ الگ حقیقتیں ہیں۔ اگر عبادت و اِستعانت کے اَحکام ایک سے ہوتے تو اِن دونوں کے
درمیان حرفِ مغایرت ''واؤ عاطفہ'' لانے کی ضرورت نہ ہوتی، بلکہ کلام یوں ہوتا : ''إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ
نَسْتَعِينُO''۔
قرآنِ مجید جو خدائے ذوالجلال کا کلام ہونے کے ناطے اپنی جامعیت میں کسی بھی اِنسانی کاوِش سے بڑھ کر
ہے اور اُس کا یہ اُسلوب ہے کہ اُس کا ہر حرف اپنا مخصوص معنی و مفہوم رکھتا ہے اور اُس کے کسی ایک
حرف کو بھی غیرضروری قرار نہیں دِیا جا سکتا۔ اگر اِس مقام پر عبادت اور اِستعانت کے مابین مغایرت کا
ذِکر مقصود نہ ہوتا تو حرفِ مغایرت ہرگز نہ لایا جاتا۔ قرآنِ مجید میں اِس کی تائید میں بیسیوں مثالیں
موجود ہیں۔ اِسی طرح جہاں مغایرت مقصود نہ ہو وہاں مغایرت کے لئے واؤ نہیں لائی جاتی۔ عدمِ مغایرت کو
ملحوظ رکھتے ہوئے حرفِ مغایرت کا عدم اِستعمال سورۂ فاتحہ ہی کی اِبتدائی تین آیات میں بخوبی ملاحظہ
کیا جاسکتا ہے۔ اﷲ ربّ العزّت کا اِرشادِ گرامی ہے :
أَلْحَمْدُِﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَo الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِo مٰلِکِ يَوْمِ الدِّيْنِo ايَاکَ نَعْبُدُ وَ ايَاکَ نَسْتَعِينُo
(الفاتحه، 1 : -41)
سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کی پرورش فرمانے والا ہےo نہایت مہربان بہت رحم فرمانے
والا ہےo روز جزا کا مالک ہےo (اے اﷲ) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیںo
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ مسلسل تین اِبتدائی آیات میں اِسمِ جلالت کے بعد پے در پے چار صفاتِ باری تعالیٰ
کا ذِکر ہے اور اُن کے درمیان کسی قسم کی مغایرت نہ ہونے کی وجہ سے کہیں بھی واؤ عاطفہ نہیں لائی
گئی۔ جبکہ اگلی آیات میں جہاں مختلف اور متغایر اَعمال و اَفعال کا ذِکر مقصود تھا، وہاں مغایرت کے
لئے واؤ عاطفہ لائی گئی۔ پس اِس سے پتہ چلا کہ دُعا اور اِستعانت و اِستغاثہ (مدد چاہنا) دو مختلف چیزیں
ہیں اور اِن میں اِنضمام و اِختلاط کی کوشش مدّعائے نزولِ قرآن کی خلاف ورزی ہے جو ہرگز درست نہیں۔ عقلِ
ناقص پر کلی اِنحصار گمراہیوں کو جنم دیتا ہے اور فلسفیانہ مُوشگافیوں میں اُلجھ کر رہ جانے والے
حقیقت کی منزل سے بہت دُور رہ جاتے ہیں، دُوسروں کو بھی ذِہنی خلفشار کی دلدل کا رِزق بناتے ہیں اور
اپنے ذِہن کو بھی غلط سوچوں کی آماجگاہ بنا کر شکوک و شبہات کے بے معنٰی جہان تخلیق کرتے ہیں۔
تاجدارِ اَنبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِستغاثہ کا مفہوم
صحیح اِسلامی عقیدے کے مطابق اِستعانت و اِستمداد، اِستغاثہ و سوال اور طلب و نداء میں اللہ ربّ العزّت ہی
کی ذات مُعین و مُغیث اور حقیقی مددگار ہے جیسا کہ اﷲ تعالی نے بارہا اِرشاد فرمایا کہ مجھ سے طلب
کرو میں تمہیں دوں گا۔ پس اگر کوئی شخص قرآنِ مجید کی اِس بنیادی تعلیم سے صرفِ نظر کرتے ہوئے یہ
عقیدہ رکھے کہ اِستغاثہ و اِستعانت اور نداء و طلب میں کوئی مخلوق اللہ ربّ العزت کے اِذن کے بغیر مستقل
بنفسہ نفع و ضرر کی مالک ہے تو یہ یقیناًشرک ہے۔ خواہ وہ مدد طلب کرنا عالمِ اَسباب کے تحت ہو یا
مافوق الاسباب، دونوں صورتوں میں ایسا شخص مشرک قرار پائے گا۔ جبکہ اِس کے برعکس دُوسری صورت میں اگر
مُستعان و مجیبِ حقیقی اللہ تعالی کو مان کر بندہ مجازاً کسی کام کے لئے دوسرے بندے سے رُجوع کرے۔ ۔ ۔
ڈاکٹر سے علاج کروائے یا دَم، درُود اور دُعا کے لئے اﷲ تعالیٰ کے کسی نیک اور صالح بندے کے پاس جائے
تو یہ ہرگز شِرک نہیں بلکہ اِس کا یہ فعل معاہدۂ عمرانی کے تحت اِختیارِ اَسباب کے ضمن میں آئے گا۔ اللہ
تعالی نے اپنے کلامِ مجید میں بارہا مؤمنین کو آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کا حکم دیا ہے۔ اِرشادِ
خداوندی ہے :
وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاثْمِ وَ الْعُدْوَانِ.
(المائده، 5 : 2)
اور نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کام) پر ایک
دوسرے کی مدد نہ کرو۔
مذکورہ آیتِ کریمہ میں اﷲ تعالیٰ جمیع مسلمانوں کو ایک دُوسرے کی مدد اور تعاونِ باہمی کا حکم فرما
رہا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ ایک دوسرے کی مدد تبھی ممکن ہے جب بعض پس ماندہ حال مؤمنین خوشحال مؤمنین
سے مدد مانگیں۔ واضح رہے کہ یہ اِستمداد و اِستغاثہ مادّی معاملات میں بھی زیرحکمِ خداوندی ہے اور
رُوحانی معاملات میں بھی، اِسی طرح ماتحت الاسباب معاملات بھی اِس میں شامل ہیں اور مافوق الاسباب بھی،
کیونکہ اللہ ربّ العزت نے تعاون (باہمی اِمداد کے نظام) کا حکم علیٰ الاطلاق دیا ہے اور قاعدہ ہے کہ قرانِ
مجید کے مطلق کو کسی خبرِ واحد یا قیاس کے ذریعے سے مقیّد نہیں کیا جا سکتا۔ اِس موقع پر اگر کوئی
شخص اِس ''تعاون'' (Mutual Cooperation) کو اَسباب کی شرط سے مقید کرنا چاہے تو وہ یقیناً خلافِ منشائے
ربانی فعل میں مصروف متصوّر ہو گا۔ اِسلامی اَحکام و تعلیمات میں تعاونِ باہمی اور ایک دُوسرے کی مدد کو
پہنچنے کا حکم آیاتِ طیبات اور اَحادیثِ مبارکہ میں بکثرت ملتا ہے، جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جس شخص
سے مدد طلب کی جائے اُسے چاہیئے کہ وہ مدد کرے اور جس سے اِستغاثہ کیا جائے وہ مدد کو پہنچے اور جسے
نداء دی جائے وہ اُس نداء کو قبول کرے اور دُکھی اِنسانیت کے کام آئے۔
اِستغاثہ کے جواز میں بے شمار مواقع پر احکامِ قرآنی موجود ہیں۔ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
سے اِستغاثہ اُسی طرح جائز ہے جیسے سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے ایک قبطی نے کسی ظالم کے خلاف اِستغاثہ
کیا توآپ نے اُس کی مدد فرمائی۔ انبیاء علیہم السلام سے بڑھ کر کون مؤحد ہو سکتا ہے جن کی زِندگی کا
مقصد ہی پیغامِ توحید کو سارے عالم میں پھیلانا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے قبطی اور نبی علیہ السلام دونوں میں
سے کسی ایک کو بھی فعلِ اِستغاثہ کے مرتکب ہونے کی وجہ سے مشرک قرار نہیں دیا۔ اِرشادِ باری تعالی ہے
:
فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِيْ مِنْ شِيْعَتِه عَلَی الَّذِيْ مِنْ عَدُوِّه.
تو جو شخص اُن کی قوم میں سے تھا اُس نے دوسرے شخص کے مقابلے میں جو موسیٰ علیہ السلام کے دشمنوں میں
سے تھا، موسیٰ علیہ السلام سے مدد طلب کی۔
(القصص' 28 : 15)
قرآنِ مجید میں اِس کے علاوہ بھی بہت سے مقامات پر گزشتہ اُمتوں کے مؤمنین کا اپنے انبیاء اور صالحینِ
اُمت سے اِستغاثہ کرنے کا بیان آیا ہے۔ اُمتِ مصطفوی میں بھی یہ حکم اور صحابۂ کرام کا اِس پر عمل جاری
و ساری رہا۔ بے شمار احادیثِ مبارکہ اِعانتِ محتاج اور آپس میں ایک دوسرے کی پریشانیاں اور غم دُور
کرنے کے باب میں وارِد ہوئی ہیں۔
اِستغاثہ۔ ۔ ۔ احادیثِ مبارکہ اور عملِ صحابہ کی روشنی میں
لمحاتِ شکستہ میں کسی کا سہارا بننا اور ساعتِ کرب میں کسی کا شریکِ غم ہونا مراسمِ محبت کی اُستواری
سے عبارت ہے۔ اِسلام کا پیغام اَمن و سلامتی کا پیغام ہے اور تاجدارِ انبیائ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
حیاتِ مقدسہ کا ایک ایک لمحہ محبت کی خوشبو سے مہک رہا ہے۔ طائف کے اَوباش لڑکوں کی سنگ باری میں
بھی لبِ اَطہر پر دُعا کے پھول کھلتے ہیں۔ خون کے پیاسوں میں وفائیں تقسیم کرنے اور عفو و درگزر کے
موتی لُٹانے والے آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دِین دراصل محبت ہی کی تفسیر کا نام ہے۔ دُکھ
درد کے زائل کرانے اور حاجات کی تکمیل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر زیادہ بڑا
وسیلہ و ذریعہ اور کون ہو سکتا ہے! قیامت کے دن جب زمانے کی سب سے بڑی سختی لوگوں پر مسلط ہو گی،
ہر کوئی نفسا نفسی پکار رہا ہو گا، لوگ اَنبیاء و صلحاء کے پاس اِستغاثہ اور طلبِ شفاعت کی غرض سے
حاضر ہوں گے، مگر اُس دِن سب انبیاء علیہم السلام اِنکار کرتے چلے جائیں گے۔ تآنکہ لوگ سرورِ کائنات
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وسیلہ بنا کر اِستغاثہ کریں گے، جس کے نتیجے میں اللہ تعالی حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے صدقے اُس وقت کی سختی کو زائل فرمائے گا۔ حدیثِ مبارکہ میں تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ سیدنا آدم علیہ السلام سے ''اِستغاثہ'' کریں گے پھر سیدنا موسیٰ علیہ
السلام سے اور پھر خاتم المرسلین سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے۔ حدیث کے الفاظ یوں ہیں
:
اسْتَغَاثُوْا بِآدَمَ، ثُمَّ بِموسیٰ، ثُمَّ بِمُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم.
لوگ آدم علیہ السلام سے اِستغاثہ کریں گے پھر موسیٰ علیہ السلام سے اور آخر میں (تاجدارِ انبیاء) محمد
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے۔
(صحيح البخاری، کتاب الزکوة، 1 : 199)
صحیح بخاری میں لفظِ اِستغاثہ کے ساتھ اِس حدیث مبارکہ کی رِوایت سے لفظ اِستغاثہ کے اِس معنی میں
اِستعمال اور عامۃ الناس کے صلحاء و انبیاء سے اِستغاثہ کرنے کا جواز مہیا ہو رہا ہے۔ قابلِ توجہ بات
یہ ہے کہ جس اِستغاثہ کی اُخروی زندگی میں اِجازت ہے اور جو اِستغاثہ و اِستعانت موجودہ دُنیوی زندگی
میں زِندہ اَفراد سے جائز ہے، برزخی حیات میں اُسی اِستغاثہ کے جواز پر شِرک کا بُہتان چہ معنی دارد۔ ۔
۔ ؟
اَحادیثِ مبارکہ میں جا بجا مذکور ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے
اِستغاثہ و اِستمداد کرتے تھے اور اپنے اَحوالِ فقر، مرض، مصیبت، حاجت، قرض اور عجز وغیرہ کو بیان کر
کے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وسیلہ مان کر اُن مسائلِ حیات کا اِزالہ چاہتے تھے۔ اِس عمل میں اُن
کا پنہاں عقیدہ یہی تھا کہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محض ایک واسطہ اور نفع وضرر میں سبب
ہیں اور حقیقی فاعل تو صرف اللہ ربّ العزت ہی کی ذات ہے۔ اَب ہم مثال کے طور پر یہاں چند اَحادیثِ مبارکہ
کا ذِکر کرتے ہیں جن میں صحابۂ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے حضور سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم سے اِستغاثہ کیا۔
سیدنا اَبوھُریرہ رضی اللہ عنہ کا اِستغاثہ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا حافظہ شروع میں بہت خراب تھا اور وہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے اِرشاداتِ گرامی کو یاد نہیں رکھ پاتے تھے۔ دریں اثناء اُنہوں نے حضور رحمۃٌللعالمین صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ بے کس پناہ میں اِستغاثہ و اِلتجاء کی، جس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے اُن کی نِسیان کی شکایت ہمیشہ کیلئے رفع فرما دی۔ یہی سبب ہے کہ آپ کثیرالرواۃ صحابی ہوئے۔ سیدنا
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنا واقعہ خود بیان فرماتے ہیں :
قُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ! انِّيْ أَسْمَعُ مِنْکَ حَدِيْثاً کَثِيْراً أَنْسَاه، قَالَ صلی الله عليه وآله وسلم : أُبْسُطْ رِدَائَک،
فَبَسَطْتُّه، قَالَ : فَغَرَفَ بِيَدَيْهِ، ثُمَّ قَالَ : ضَمِّ فَضَمَمْتُه، فَمَا نَسَيْتُ شَيْأً بَعْدُ.
میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں آپ کی بہت سی احادیث سنتا ہوں اور پھر
بھول جاتا ہوں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنی چادر پھیلاؤ، پس میں نے پھیلائی۔ حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (فضا میں سے) اپنے ہاتھوں سے
کوئی چیز اُٹھا کر اس (چادر) میں ڈالی، پھر فرمایا : اِسے اپنے سے ملا لو، پس میں نے ملا لیا اور پھر
اُس کے بعد میں کبھی کوئی چیز نہ بھولا۔
(صحيح البخاری، کتاب العلم، 1 : 22)
(صحيح البخاری، کتاب الصوم، 1 : 274)
صحیح بخاری کی مذکورہ حدیثِ مبارکہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ رسولِ اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہر مشکل کا حل حاصل کرنے کیلئے اِستغاثہ کیا کرتے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ
سے بڑا موحّد اور کون ہو سکتا ہے! اور نبیء کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر داعی اِلیٰ التوحید
کون قرار پا سکتا ہے! مگر اِس کے باوجود سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے
اِستغاثہ و اِستمداد کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِنکار کی بجائے اُن کا مسئلہ زندگی بھر کیلئے
حل فرما دیا۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ ہر موحّد یہ جانتا ہے کہ مُستعانِ حقیقی فقط اللہ ربّ العزّت کی ذات ہے،
انبیاء، اولیاء، صلحاء اور پاکانِ اُمت جن سے مدد طلب کی جاتی ہے، وہ تو حلِ مشکلات میں صرف سبب اور
ذریعہ ہیں۔ اُن کا تصرّف محض اللہ تعالی کی عطاء سے قائم ہوتا ہے تاکہ وہ لوگوں کیلئے اللہ تعالی کی
بارگاہ میں مطلوب کے حصول کا ذرِیعہ اور وسیلہ بنیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِستغاثہ کیا اور سرورِ کائنات صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے اُن کی حاجت کو پورا فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں یہ نہیں فرمایا
کہ جاؤ اللہ سے دُعا کرو اور توحید پر قائم رہو بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہوا سے اَن دیکھی شے
کی مٹھی بھر کر اُن کی چادر میں ڈال دی اور حکم دیا کہ اِسے اپنے سینے سے مل لو۔ پس اللہ تعالی نے حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حاجت براری کے لئے اِس عمل کو بطور وسیلہ قبول کر لیا۔
ہر ذِی شعور موحّد یہ جانتا ہے کہ قضائے حاجت اور مطلب براری کے لئے دُعا اور مدد صرف اُسی سے مانگی
جاتی ہے جس کے قبضۂ قدرت میں کل اِختیاراتِ عالم ہیں۔ جبکہ طالبِ وسیلہ کا مقصود یہ ہوتا ہے کہ وسیلہ
بننے اور شفاعت کرنے والا اللہ ربّ العزّت سے مُجھ گناہگار کی نسبت زیادہ قربت رکھتا ہے اور اُس کا مرتبہ
اِستغاثہ کرنے والے کی نسبت بارگاہِ ایزدی میں زیادہ ہے۔ سائل اُسے مستغاثِ مجازی سے زیادہ کچھ نہیں
جانتا کیونکہ وہ اِس بات سے آگاہ ہوتا ہے کہ مستغاثِ حقیقی فقط اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ یہی معاملہ حدیثِ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے واضح ہوتا ہے۔
سیدنا قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کا اِستغاثہ
سیدنا قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کی چشمِ مبارک غزوۂ بدر کے دوران ضائع ہو گئی اور آنکھ کا ڈھیلا
اپنے اصل مقام سے باہر نکل کر باہر چہرے پر لٹک گیا۔ تکلیف کی شدّت کو مدِّنظر رکھتے ہوئے چند صحابہ
رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ کیوں نہ آنکھ کی رَگ کاٹ دی جائے تاکہ تکلیف کچھ کم ہو جائے۔ حضرت قتادہ
رضی اللہ عنہ نے ساتھیوں کے مشورے پر عملدرآمد سے پہلے محسنِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ
میں عرضِ حال و اِلتجاء کا فیصلہ کیا۔ سرورِ انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر جب بپتا
سنائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ بے کس پناہ میں اِستعانت و اِستغاثہ کیا تو حضورِ اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آنکھ کو کاٹنے کی اِجازت دینے کی بجائے اپنے دستِمبارک سے آنکھ کو دوبارہ
اُس کے اصل مقام پر رکھ دیا جس سے اُن کی بینائی پھر سے لوٹ آئی۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے
تھے کہ میری ضائع ہونے والی آنکھ کی بینائی کسی طرح بھی پہلی آنکھ سے کم نہیں بلکہ پہلے سے بھی
بہتر ہے۔ اِس حدیثِ اِستغاثہ کو اِمام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے دلائل النبوۃ میں یوں رقم کیا ہے :
عَنْ قَتَادَة بْنِ النُّعْمَانَ، أَنَّه أُصِيْبَتْ عَيْنَه يَوْمَ بَدْرٍ، فَسَالَتْ حَدَقَتُه عَلَی وَجَنَتِه، فَأَرَادُوْا أَنْ يَقْطَعُوْهَا، فَسَأَلُوْا
رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَيْهِ وَسَلَّمْ فَقَالَ : لَا، فَدَعَا بِه، فَغَمَزَ حَدَقَتَه بِرَاحَتِه، فَکَانَ لَا يَدْرِيْ أَيُّ عَيْنَيْهِ أُصِيْبَتْ.
سیدنا قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اُن کی آنکھ غزوۂ بدر کے دوران ضائع ہو گئی اور ڈھیلا
نکل کر چہرے پر آ گیا۔ دیگر صحابہ رضی اللہ عنہ نے اُسے کاٹ دینا چاہا۔
(مُسند اَبو يعلی، 3 : 120)
(دلائل النبوّه، 3 : 100)
(طبقات اِبنِ سعد، 1 : 187)
(تاريخ اِبنِ کثير، 3 : 291)
(الاصابه فی تمييز الصحابه، 3 : 225)
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا دیا۔ پھر
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دُعا فرمائی اور آنکھ کو دوبارہ اُس کے مقام پر رکھ دیا۔ پس حضرت قتادہ
رضی اللہ عنہ کی آنکھ اِس طرح ٹھیک ہو گئی کہ معلوم بھی نہ ہوتا تھا کہ کون سی آنکھ خراب ہوئی تھی۔
دُمبل زدہ صحابی رضی اللہ عنہ کا اِستغاثہ
کتبِ احادیث میں طبیبِ اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک دُمبل زدہ صحابی کا اِستغاثہ بھی مروی ہے۔
ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں دُمبل (Struma) تھا جس کی وجہ سے دورانِ جہاد اُن کے لئے گھوڑے کی
لگام یا تلوار کا دَستہ پکڑنا ممکن نہ رہا تھا۔ وہ صحابی آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ
اَقدس میں حاضر ہوئے اور اِس بیماری کے علاج کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِستغاثہ کیا۔ پس اللہ ربّ
العزّت جو مستعانِ حقیقی ہے اُس نے دستِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے اُس صحابی کو شفا عطا
فرما دی۔ یہ حدیثِ مبارکہ مجمع الزوائد میں یوں مروی ہے :
أتيتُ رسولَ اﷲ صلی اﷲ عليه وسلم و بکفی سلعةٌ، فقلتُ : ''يانبی اﷲ! هذا السلعة قد أورمتنی لتحول بيني
و بين قائم السيف أن أقبض عليه و عن عنان الدابة''. فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ''أُدْنُ
مِنِّي''. فَدَنَوْتُ، فَفَتَحَهَا، فَنَفَثَ فِيْ کَفَّي، ثُمَّ وَضَعَ يَدَه عَلَي السَّلْعَة، فَمَا زَالَ يَطْحِنُهَا يَکُفُّه حَتَّي رَفَعَ عَنْهَا وَ
مَا أَرَي أَثْرَهَا.
میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔ میرے ہاتھ میں ایک دُمبل تھا۔ میں نے
عرض کیا : ''یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (میرے ہاتھ پر) دُمبل ہے جس کی وجہ سے مجھے سواری کی
لگام اور تلوار پکڑنے میں تکلیف ہوتی ہے''۔ نبیء کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ''میرے
قریب ہو جاؤ''۔ پس میں آپ سے قریب ہو گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس دُمبل کو کھولا اور
میرے ہاتھ میں پھونک ماری اور اپنے دست مبارک کو دُمبل پر رکھ دیا اور دباتے رہے حتی کہ جب ہاتھ
اُٹھایا تو اُس (دُمبل) کا اثر مکمل طور پر زائل ہو چکا تھا۔
(مجمع الزوائد، 8 : 298)
نابینا صحابی رضی اللہ عنہ کا اِستغاثہ
مادر زاد نابیناؤں کو نعمتِ بصارت سے فیضیاب کرنا سیدنا عیسٰی علیہ السلام کا معجزہ ہونے کے ساتھ
تاجدارِ انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ بھی ہے۔ روایت ہے کہ ایک نابینا صحابی رضی اللہ عنہ
سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اَقدس میں بینائی کے حصول کے لئے اِستغاثہ کرنے آئے تو
آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں منع کرنے اور اِستغاثہ کی حُرمت یا خدشۂ شِرک کا اِظہار کرنے کی
بجائے خود اُنہیں دُعا کی تلقین فرمائی۔ یہ دُعا اپنی ذات میں وسیلہ اور اِستغاثہ دونوں کی جامع ہے
اور اُس نابینا صحابی رضی اللہ عنہ جیسے خلوص سے کی جانے کی صورت میں آج بھی دُکھی اِنسانیت کے لئے مجرّب
اکسیر ہے۔ مذکورہ دُعا یہ ہے :
أَللّٰهُمَّ انِّيْ أَسْئَلُکَ وَ أَتَوَجَّهُ الَيْکَ بِنَبِيِّکَ مُحَمَّدٍ نَبِیِّ الرَّحْمَة، يَامُحَمَّدُ! انِّيْ قَدْ تَوَجَّهْتُ بِکَ الَی رَبِّيْ فِيْ حَاجَتِيْ
هٰذِهِ فَتَقْضِيْ لِيْ، أَللّٰهُمَّ فَشَفِّعْه فِيَ.
(جامع الترمذی، اَبواب الدّعوات، 2 : 197)
(مسند اَحمد بن حنبل، 4 : 138)
(المستدرک، 1 : 313، 519، 526)
اے میرے اللہ! میں نبیء رحمت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے سے تجھ سے سوال کرتا اور تیری
طرف متوجہ ہوتا ہوں۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں اپنی اِس حاجت میں آپ کے واسطے سے اپنے ربّ
کی طرف متوجہ ہوتا ہوں تاکہ یہ حاجت بر آئے۔ اے میرے اللہ! میرے معاملے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی سفارِش و شفاعت کو قبول کر لے۔
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ حدیثِ مبارکہ میں مذکور دُعا کا اِبتدائی جملہ نبیء کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کو اللہ ربّ العزت کی بارگاہ میں بطور وسیلہ پیش کر رہا ہے، جبکہ اِسی دُعا کا دوسرا جملہ جس میں حضور
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کیا جا رہا ہے مقبولانِ بارگاہِ الٰہی سے اِستغاثہ کا نہ صرف جواز بلکہ
حکم مہیا کر رہا ہے۔ اگر اللہ تعالی کے سِوا کسی مخلوق سے اِستغاثہ جائز اور درست نہ ہوتا تو نبیء کریم
رؤفٌ رّحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِس عمل کے کرنے کا حکم اِرشاد نہ فرماتے۔ کائنات کے سب سے بڑے موحّد
نے جب خود اپنی ذات سے اِستغاثہ کا حکم اِرشاد فرمایا ہے تو ہم کون ہوتے ہیں کہ توحید کو خالص کرنے
کے زعم میں اِسلام کے حقیقی عقائد و نظریات اور تعلیمات کا چہرہ مسخ کرتے ہوئے جمیع مسلمانانِ عالم
کو کافر و مشرک قرار دینے لگیں۔
ایک صحابی رضی اللہ عنہ کا بارش کے لئے اِستغاثہ
کتبِ احادیث اِستغاثہ بالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِثبات اور عملِ صحابہ رضی اللہ عنہ سے اِس کے ثبوت
میں بھری پڑی ہیں۔ احادیثِ صحیحہ مرفوعہ متواترہ سے یہ بات ثابت ہے کہ صحابۂ کرام کو جب بھی کوئی
مصیبت و آفت درپیش ہوتی وہ دوڑے دوڑے سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ بیکس پناہ میں
اِستغاثہ کے لئے حاضر ہوتے۔ اللہ تعالی کے حضور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وسیلہ بنا کر دُعا کرتے اور
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاجت براری کے لئے اِستغاثہ کرتے۔ جس کے نتیجے میں اللہ ربّ العزت اُن پر
آئی ہوئی مشکل کو ٹال دیتا۔ سیدنا اَنس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی حدیثِ اِستسقاء کو صحیح قرار دیتے
ہوئے اِمام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اِس طرح رِوایت کیا ہے کہ :
عن أنس، قال : ''بينما رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يخطب يومَ الجمعة اذا جاء رجلٌ، فقال :
''يارسول اﷲ صلي اﷲ عليک وسلم قحط المطر فادع اﷲ أن يسقينا''. فدعا، فمطرنا، فما کدنا أن نصلّ الٰي
منازلنا، فما زلنا نمطر الٰي الجمعة المُقبلة، قال : فقام ذٰلک الرجل أو غيره، فقال : ''يا رسول
اﷲصلي اﷲ عليک وسلم أدع اﷲ أن يصرفه عنا''. فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ''اللّٰهُمَّ حَوَالَيْنَا
وَ لَا عَلَيْنَا''، قال : ''فلقد رأيتُ السّحاب يتقطع يميناً و شمالًا يمطرون و لا يمطر أهل المدينة''.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے رِوایت ہے کہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمعہ کے روز خطاب
فرما رہے تھے کہ ایک آدمی آیا اور عرض گزار ہوا : ''اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! بارش کا
قحط ہے پس اللہ سے دُعا فرمائیں کہ وہ ہمیں بارش عطا کرے''۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دُعا فرمائی
پس ہمارے گھر وں کو پہنچنے سے پہلے پہلے بارش شروع ہو گئی جو اگلے جمعہ تک مسلسل جاری رہی۔ (حضرت
انس رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ (اگلے جمعہ) پھر وہی یا کوئی اور شخص کھڑا ہوا اور عرض کی : ''اے اللہ
کے رسول صلی اﷲ علیک وسلم! اللہ سے دُعا کریں کہ اِس (بارش) کو ہم سے ہٹا دے''۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے دُعا فرمائی : ''اَے اللہ ہمارے اِردگِرد ہو اور ہمارے اوپر نہ ہو'' پس میں نے دیکھا کہ بادل
دائیں اور بائیں ہٹ کر بارش برسانے لگا اور اہلِ مدینہ پر سے بارش ختم ہو گئی۔
(صحيح البخاری، کتاب الاستسقاء، 1 : 138)
عملِ صحابہ سے اِستغاثہ کا ثبوت اور آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صحابۂ کرام کو اِس عمل سے روکنے
کی بجائے اُن کی حاجت براری کرنا اِس بات کو ثابت کرتا ہے کہ یہ عمل شِرک کے اَدنیٰ سے شائبے سے بھی
دُور ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی صحابی شِرک میں مبتلا ہو اور یہ تو اُس سے بھی زیادہ ناممکن بات ہے
کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہ کو شِرک سے بچنے کی تعلیم نہ دیں۔
سیدنا اَمیر حمزہ رضی اللہ عنہ ۔ ۔ ۔ کَاشِفُ الکُرُبَاتِ
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبیء کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے چچا سیدنا حمزہ
رضی اللہ عنہ کی غزوۂ اُحد میں شہادت پر اِس قدر روئے کہ اُنہیں ساری زِندگی اِتنی شدّت سے روتے نہیں دیکھا
گیا۔ فرماتے ہیں کہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ رضی اللہ عنہ کے جنازے کو قبلہ کی سمت رکھ
کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہچکی بندھ گئی۔ پھر سیدنا اَمیرحمزہ
رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمانے لگے :
يا حمزةُ! يا عمَّ رسولِ اﷲ! و أسدَ اﷲ! و أسدَ رسوله! ياحمزةُ! يا فاعلَ الخيراتِ! ياحمزةُ! ياکاشفَ
الکُرُباتِ! ياذابّ عن وجه رسولِ اﷲ!
(المواهب اللدنية، 1 : 212)
اے حمزہ رضی اللہ عنہ ! اے رسول اللہ کے چچا! اے اللہ کے شیر! اے اﷲ کے رسول کے شیر! اے حمزہ! اے بھلائی کے
کام کرنے والے! اے تکالیف کو دور کرنے والے! اے رسول اللہ کے چہرۂ اَنور کی حفاظت و حمایت کرنے والے!
اِس حدیثِ مبارکہ میں ایک فوت شدہ شخص کے لئے حرفِ ''يَا'' کے ساتھ نداء کے جواز کے ساتھ ساتھ آنحضور
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے الفاظ ''يَا کَاشِفَ الْکُرُبَاتِ'' بھی خاص طور پر قابلِ غور ہیں۔ اِن الفاظ کی
ادائیگی میں سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صالحین سے اِستغاثہ کو نہ صرف جائز قرار دیا ہے
بلکہ جس سے اِستغاثہ کیا جائے اُس کا مدد کو پہنچنا بھی جائز گردانا ہے، تبھی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کو ''غم کو دُور کرنے والے'' کے پسندیدہ الفاظ سے پکارا۔ یہاں
سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کا مُستغاث ہونا مجازی معنی میں ہے کیونکہ حقیقی مُستغاث و مُستعان تو محض
اللہ ربّ العزّت کی ذات ہے۔ نبیء کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کو مُستغاث
قرار دینا اور بعد از وفات اُنہیں حرفِ ''يَا'' کے ساتھ بلانا ظاہر کرتا ہے کہ اِستغاثہ کے سلسلے میں
حقیقی اور مجازی کی تقسیم عین شرعی ہے ورنہ فعلِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِس سے قطعاً مطابقت نہ
رکھتا۔
بعد اَز ممات اِستغاثہ کا جواز
مُبادیاتِ اِستغاثہ
اِستغاثہ کے جواز پر قرآن و سنت کے جمیع اَحکام اور عملِ صحابہ رضی اللہ عنھم سے بخوبی آگاہ ہونے کے
باوجود بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ دُنیوی زِندگی میں تو ایک دُوسرے کے کام آنا ممکن ہے لہٰذا مدد
مانگنا اور مدد کرنا بھی جائز ٹھہرا، لیکن موت کے بعد تو بندہ اپنے بدن پر بھی قادِر نہیں ہوتا، تب
اُس سے کیونکر مدد طلب کی جا سکتی ہے؟ اور چونکہ وہ مدد پر قدرت نہیں رکھتا لہٰذا یہ شِرک ہے۔
اِس کج فہمی کے بارے میں ہم دو چیزوں کی وضاحت بطورِ خاص کرنا چاہیں گے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ
یہ ایک طے شدہ اَمر ہے کہ بندہ زِندہ ہو یا قبر میں آرام کر رہا ہو دونوں صورتوں میں وہ اپنے وُجود
پر قطعاً قادرِ مطلق نہیں ہوتا۔ یہ محض اللہ تعالی کی طرف سے عطا کردہ وہ اِختیارات ہوتے ہیں جنہیں ہم
حیاتِ دُنیوی کے دوران اِستعمال کرتے اور دُنیا بھر کے معاملات سراِنجام دیتے پھرتے ہیں۔ یہ اِختیار اﷲ
ربّ العزّت کی عطا سے قائم ہے، اور اگر اِس ظاہری حیات میں بھی اﷲ تعالیٰ اپنا دِیا ہوا یہ اِختیار
چھین لے تو بندہ ایک تنکا توڑنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔ سوجس طرح اِس عالمِ اَسباب میں
بندے کے جملہ اِختیارات کا حقیقی مالک اﷲتعالی ہے اور اِس کے باوجود بھی اُس سے مدد طلب کرنا شِرک
نہیں بلکہ حکمِ خداوندی ہے، بالکل اِسی طرح موت کے بعد بھی اگر کسی بندۂ بشر سے اِمداد طلب کی جائے
تو اُسے اللہ تعالی ہی کی طرف سے مختار مانا جائے گا۔ جس طرح زِندگی میں کسی بھی صورت میں بندے کو
مُستغاث و مختارِ حقیقی ماننا شِرک ہے لیکن مجازاً اُسے مدد کے لئے پُکارا جا سکتا ہے اِسی طرح بعداَز موت
اولیاء و صلحاء کو مُستغاثِ مجازی مان کر اُن سے اِستغاثہ کرنا بھی جائز ہے۔ شِرک زِندہ سے ہو یا فوت
شدہ سے شِرک ہی ہے اور مجازی مالک مان کر مدد مانگنا زِندہ سے ہویا اہلِ مزار سے دونوں صورتوں میں
شِرک نہیں ہوگا۔ اِسلام کے معیار دُہرے نہیں کہ مسجد میں تو شِرک نہ ہو اور مندر میں جاکر وہی عمل کریں
تو شِرک ہو جائے۔ اِسلامی اَحکام اور اُن سے ثابت ہونے والے نتائج ہر جگہ یکساں نتائج ظاہر کرتے ہیں۔
سو اگر کسی ڈاکٹر کو مستغاثِ حقیقی سمجھ کر اُس سے علاج کروایا جائے تو یہ شِرک قرار پائے گا جبکہ
دُوسری طرف اللہ ربّ العزّت ہی کو مستغاثِ حقیقی جان کرکسی بزرگ کی دُعا یا کسی صاحبِ مزار کے وسیلے کو علاج
کا ذریعہ بنایا جائے تو وہ بھی عین رَوا ہے اور ہرگز خلافِ شریعتِ اِسلامی نہیں ہے۔
اَب رہا یہ اِعتراض کہ اہلِ قبور کو مدد کی اِستعداد نہیں ہوتی تویہ بھی ایک لغو اِستنباط ہے کیونکہ اللہ
تعالی نے خود قرآنِ مجید میں متعدّد مقامات پر اَہل اللہ کی برزخی حیات کا ذِکر فرمایا ہے۔ حیاتِ شہداء کے
بارے میں تو کسی مسلک و مذہب کے پیروکاروں میں بھی اِختلاف نہیں ہے۔ جس نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
اَدنیٰ اُمتی مرتبۂ شہادت پا کر قیامت تک کے لئے زِندہ ہیں اور اُنہیں اللہ تعالی کی طرف سے رِزق بھی بہم
پہنچایا جاتا ہے، اُس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنی حیاتِ برزخی کی لطافتوں کا عالم کیا
ہوگا! پس سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حیات بعداَز ممات کے عقیدے کے تحت مستغاثِ مجازی قرار
دیتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِستعانت و اِستمداد کرنا بالکل اُسی طرح سے درُست ہے جیسے آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں جائز تھا۔ حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ
برزخی کا تو یہ عالم ہے کہ اُمت کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درُود و سلام کے جو نذرانے پیش
کئے جاتے ہیں، وہ بھی فرشتے شب و روز حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پہنچانے پر مامور
ہیں۔
اگر طلبِ شفاعت، اِستغاثہ اور توسل کفر و شِرک کے قبیل سے ہوتا تو پھر دنیا میں، حیاتِ برزخی میں اور
آخرت میں ہر جگہ اِسے کفر و شِرک ہی ہونا چاہیئے تھا۔۔۔ کیونکہ شِرک تو اللہ تعالی کو ہر حال میں ناپسند
ہے۔۔۔ مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ تعلیماتِ اِسلامی میں واضح صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ زِندگی میں
بھی صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نے بے شمار مواقع پر آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِستغاثہ و توسل
کیا اور حیاتِ اُخروی میں بھی قیامت کے روز اُنہی کے دَر پر اِستغاثہ کریں گے۔ یہ اِستغاثہ ہی کا صلہ
ہوگا کہ شفیعِ مُذنبیں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالی کی بارگاہ میں گناہگار مخلوق کی شفاعت کریں گے۔
سو جب حیاتِ دُنیوی اور حیاتِ اُخروی میں اِستغاثہ جائز ٹھہرا تو حیات ہی کی ایک قسم ''حیاتِ برزخی''
میں اُسے شِرک قرار دینا کس طرح سے درُست ہوسکتا ہے؟
حیاتِ برزخی کا ثبوت
حیات بعداَز موت یا قبر کی زِندگی کی حقیقت قرآن و حدیث کی تعلیمات سے اُسی طرح ثابت ہے جیسے قیامت
کے روز جی اُٹھنا۔ قرآنِ حکیم میں اﷲ ربّ العزت کا ارشادِ گرامی ہے :
كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنتُمْ أَمْوَاتاً فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَO
تم کس طرح اللہ کا انکار کرتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے اس نے تمہیں زندگی بخشی، پھر تمہیں موت سے
ہمکنار کرے گا اور پھر تمہیں زندہ کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گےo
(البقره، 2 : 28)
اِس آیتِ کریمہ میں دو اَموات، دو زندگیوں اور بالآخر یومِ آخرت کو تمام اِنسانیت کو اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ
میں لوٹائے جانے کا صراحتاً ذِکر ہے۔ آیتِ کریمہ کی روشنی میں پہلی موت تو ہمارا عدم تھا، جب ہم ابھی
عالمِ وُجود میں نہ آئے تھے۔ اُس کے بعد کی زندگی ہماری یہ دُینوی حیات ہے۔ پھر اُس کے بعد موت آئے گی
اور لوگ حسبِ حال ہمارا کفن دفن کریں گے۔ اس موت کے بعد کی زِندگی حیاتِ برزخی کہلاتی ہے جو ہر اِنسان
کو قبر (یا حالتِ قبر) میں میسر آتی ہے اور فرشتے سوالات پوچھنے آتے ہیں اور جنت یا جہنم کی طرف سے
ایک کھڑکی قبر میں کھول جاتے ہیں۔ اُس دُوسری زِندگی کے بعد ہمیں روزِ محشر اللہ ربّ العزّت کی طرف لوٹایا
جائے گا۔ یوں حیاتِ برزخی کا دَورانیہ قبر میں سوالات کیلئے فرشتوں کی آمد سے لے کر روزِ محشر پھونکے
جانے والے صورِ اِسرافیل تک طویل ہے۔
یہ تو ایک عام اِنسان (خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر) کی حیاتِ برزخی کا معاملہ تھا، آئیے اَب حیاتِ
شہداء کے سلسلے میں سورۂ بقرہ ہی کی ایک اور آیتِ مبارکہ ملاحظہ کرتے ہیں :
وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِن لاَّ تَشْعُرُونَO
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں اُنہیں مت کہا کرو کہ یہ مردہ ہیں، (وہ مردہ نہیں) بلکہ زندہ
ہیں لیکن تمہیں (اُن کی زندگی کا) شعور نہیںo
(البقره، 2 : 154)
اِسی مضمون کو سورۂ آل عمران میں کچھ مختلف اَلفاظ کے ساتھ یوں اِرشاد فرمایا گیا :
وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَO
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے جائیں اُنہیں ہرگز مردہ خیال (بھی) نہ کرنا بلکہ وہ اپنے ربّ کے
حضور زندہ ہیں، اُنہیں (جنت کی نعمتوں کا) رِزق دیا جاتا ہےo
(آل عمران، 3 : 169)
شہداء کی حیات پر تو ہر مسلک کے پیروکار قائل ہیں تاہم مذکورہ بالا آیاتِ کریمہ کے علاوہ متعدّد
اَحادیثِ مبارکہ میں بھی کفار و مشرکین کی موت کے بعد حیات اور زِندہ لوگوں کے کلام کو مرنے کے بعد
سننے پر قدرت کا ثبوت پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر غزوۂ بدر کے بعد سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے خود کفار و مشرکین میں سے قتل ہو جانے والوں کو نام لے لے کر پکارا اور اُن سے پوچھا :
فَإِنَّا قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَهَلْ وَجَدْتُّمْ مَّا وَعَدَ رَبُّکُمْ حَقًّا؟
تحقیق ہم نے اپنے ربّ کے وعدے کوبالکل درست پایا، سو (اے کفار و مشرکین) کیا تم نے بھی اپنے ربّ کا
وعدہ سچا پایا؟
اِس موقع پر سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنھم بارگاہِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں یوں عرض گزار
ہوئے : ''حضور! آپ ایسے جسموں سے خطاب فرما رہے ہیں جن میں روح ہی نہیں''۔ اِس پر آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے صحابۂ کرام سے مخاطب ہو کر فرمایا :
وَ الَّذِيْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ! مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَع لِمَا أَقُوْلُ مِنْهُمْ.
اُس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان ہے، میں اُن (کفار و مشرکین) سے جو
باتیں کر رہا ہوں وہ اُنہیں تم سے بڑھ کر سننے پر قادر ہیں۔
(صحيح البخاری، کتاب المغازی، 2 : 566)
صحیح بخاری کی اِس حدیثِ مبارکہ سے تو کفار و مشرکین تک کی بعد از موت برزخی زِندگی میں میسر قوتِ
سماعت نہ صرف عام زِندہ اِنسانوں بلکہ زِندہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کی سماعت سے بھی بڑھ کر قرار پا
رہی ہے۔
اِسی طرح محسنِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کے قبرستان کے پاس سے گزرنے والے ہر شخص کو
یہ تعلیم دی کہ وہ اہلِ قبور کو نہ صرف حرفِ نداء ''یَا'' کے ذریعے مخاطب کرے بلکہ اُن پر سلام بھی
بھیجے۔ یہی سبب ہے کہ مسلمان اپنے بچوں کو یہ تعلیم دیتے ہیں کہ قبر ستان کے پاس گزرتے وقت
''السَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا اَھْلَ الْقُبُوْرِ'' ضرور کہا کریں۔
جب کفار و مشرکین کی حیات، عامۃ المؤمنین کی حیات اور شہداء و صالحین کی حیات اپنے اپنے حسبِ حال
قرآن و حدیث کی نصوص سے ثابت ہے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ انبیاء علیھم السلام اور بالخصوص تاجدارِ
انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات کا اِنکار کیا جائے؟ باوجود یہ کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم واشگاف اَلفاظ میں بار ہا یہ اِعلان فرما چکے ہیں کہ :
إِنَّ اﷲَ حَرَّمَ عَلَی الْأَرْضِ أَنْ تَأْکُلَ أجْسَادَ الْأنْبِيَآءِ، فَنَبِیُّ اﷲِ حَیٌّ يُّرْزَقُ.
اللہ تعالی نے زمین پر حرام قرار دیا ہے کہ وہ انبیاء کے اجسام کو کھائے۔ پس اَنبیاء علیھم السلام زندہ
ہیں اور اُنہیں رِزق بہم پہنچایا جاتا ہے۔
(سنن النسائی، کتاب الجمعه، 1 : 204)
(سنن اَبوداؤد، کتاب الصلوٰة، 1 : 157)
(سنن اِبن ماجه، کتاب الجنائز : 119)
اِس حدیث مبارکہ سے بالصراحت یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اللہ تعالی کی قدرتِ کاملہ سے انبیاء علیھم السلام
اپنی قبور میں زِندہ ہوتے ہیں۔ ایک حدیثِ مبارکہ میں تو یہاں تک وارِد ہے کہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے سامنے اُمت کے اَعمال پیش کئے جاتے ہیں، نیک اَعمال پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کا
شکر ادا کرتے ہیں جبکہ بداَعمالیوں پر اللہ کے حضور اُمت کی مغفرت کے لئے دُعا فرماتے ہیں۔ حدیثِ مبارکہ
کے اَلفاظ یہ ہیں :
تُعرضُ علیّ أعمالُکم فما رأيتُ مِن خيرٍ حمدتُ اﷲَ عليهِ وَ ما رأيتُ مِن شرِّ نِاسْتغفرتُ اﷲَ لکُم.
مجھ پر تمہارے اَعمال پیش کئے جاتے ہیں اگر وہ اچھے ہوں تو میں اللہ کا شکر بجا لاتا ہوں اگر اَعمال
اچھے نہ ہوں تو اللہ کے حضور تمہاری مغفرت کے لئے دُعا کرتا ہوں۔
(مجمع الزوائد، 9 : 24)
وہ خدائے ذوالجلال جو اِس دنیا میں اور آخرت میں جمیع اِنسانیت کو زِندگی عطا کرنے اور رِزق مہیا کرنے
پر قادِر ہے وُہی انبیائے کرام علیھم السلام کو قبروں میں بھی زِندہ رکھنے اور رِزق بہم پہنچانے پر
قادِر ہے۔ اِسلامی لٹریچر میں دَر آنے والی یونانی فلاسفہ کی رُوح کی برزخی حیات پراُلجھا کر رکھ دینے
والی غیر فطری و غیرسائنسی بحثیں اِسلام کے غیر متغیر اور اٹل فطری اُصولوں کے سامنے کوئی حیثیت نہیں
رکھتیں۔ اَحکامِ اِسلام صاف اور کھرے اَنداز میں اقسامِ حیات اور حیاتِ برزخی کے حامل افراد کو پکارنے کے
بارے میں اﷲ ربّ العزّت کی تعلیمات کو واضح کر رہے ہیں اور اِس بات کا واشگاف اَلفاظ میں اِعلان کر رہے
ہیں کہ اَنبیاء علیھم السلام، شُہداء، صلحاء، عام مسلمان حتی کہ کفّار و مشرکین بھی اپنی قبروں میں
زِندہ ہوتے ہیں۔ شہداء کو تو اَسبابِ برزخی کے تحت رِزق بہم پہنچائے جانے پر قرآنِ مجید خود شاہدِ عادل
ہے۔ سو جو لوگ ظاہری حیات میں اِستغاثہ کو جائز مان کر موت کے بعد اِستغاثہ کو حرام بلکہ شِرک کا
موجب قرار دے رہے ہیں اُن کے لئے اِتنی بات واضح ہوگئی کہ موت ایک لمحے کے ذائقے کا نام ہے جو آکر
چلی جاتی ہے۔ بقول حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ :
موت تجدیدِ مذاقِ زِندگی کا نام ہے
خواب کے پردے میں بیداری کا اِک پیغام ہے
حیاتِ دُنیوی اور قیامت کے روز عطا ہونے والی اُخروی حیات کے مابین حیاتِ برزخی کا زمانہ موجود ہوتا
ہے۔ پس جیسے دُنیوی اور اُخروی حیات کے حامل فردِبشر سے اِستمداد و اِستعانت اور اِستغاثہ کرنا جائز ہے
بعینہ حیاتِ برزخی کے دَوران بھی اِستغاثہ رَوا ہے، اِس میں شِرک تو درکنار اُس کاذرا سا شائبہ بھی موجود
نہیں۔ کیونکہ دُنیوی، برزخی اور اُخروی، تینوں زندگیوں میں اللہ تعالی کو مستعانِ حقیقی اور بندے کو
مستغاثِ مجازی مان کر اِستغاثہ کیا جاتا ہے جو کہ جائز ہے۔ مذکورہ تینوں اقسامِ حیات میں سے کسی بھی
زِندگی میں بندے کو مستغاثِ حقیقی سمجھ لینا یقیناً شِرک ہے۔ واضح رہے کہ شِرک کا سبب اَقسامِ حیات نہیں
بلکہ حقیقت و مجاز کی تفریق ہے۔
رُوح کی حیات اور اِستعداد
اَرواحِ اِنسانی کی حیاتِ برزخی کے دلیلِ قطعی کے ساتھ حق ثابت ہو جانے کے بعد اِستغاثہ بعد الموت کو
ناجائز سمجھنا کم فہمی یا ہٹ دھرمی کے سِوا کچھ نہیں۔ اَرواحِ اَنبیاء و صلحاء سے اِستمداد و اِستغاثہ
بالکل اُسی طرح روَا ہے جس طرح کسی زِندہ اِنسان یا فرشتوں سے مدد طلب کی جاتی ہے۔ جب ہم زِندگی میں
کسی اِنسان سے مدد کے خواہاں ہوتے ہیں تو درحقیقت ہم اُس کی رُوح سے ہی مدد چاہتے ہیں۔ جسمِ اِنسانی تو
اصل اِنسان۔۔۔ رُوح۔۔۔ کا لباس ہوتا ہے۔ موت کے بعد جب رُوح جسم کی مادّی بندشوں سے آزاد ہو جاتی ہے
تو جسدِ خاکی کی آلائشوں سے آزاد ہو جانے کی وجہ سے فرشتوں کی طرح بلکہ اُن سے بھی بڑھ کر غیر مادّی
اَفعال سراِنجام دینے پر قادِر ہو جاتی ہے۔ ہمارے مادّی عالم میں جو قوانینِ تصرّف معروف ہیں رُوح اُن
قوانین کی پابندی سے مکمل طور پر آزاد ہوتی ہے کیونکہ اُس کا عالم۔۔۔ عالمِ امر۔۔۔ جسم کے اِس عالمِ
اَسباب سے مختلف ہوتا ہے۔ اِسی حقیقت کے بارے میں اِرشاد باری تعالی ہے :
وَ يسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ، قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أمْرِ رَبِّی.
اور یہ (کفار) آپ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں، فرما دیجئے رُوح میرے ربّ کے اَمر سے ہے۔
(الاسراء، 17 : 85)
اَرواح کو حیاتِ برزخی میں عالمِ امر کی جو زندگی میسر ہوتی ہے اُس میں وہ دُنیا کی جسمانی زِندگی سے
بڑھ کر اَعمال و اَفعال پر قادِر ہو جاتی ہیں اور اپنے پکارنے والوں اور مدد طلب کرنے والوں کی مدد
کو پہنچ سکتی ہیں۔ اگر اِستغاثہ کو صرف محسوسات و مبصرات ہی کے تحت جائز سمجھا جائے تو یہ اِیمان کا
شیوہ نہیں بلکہ فلسفے کا طریق ہے جبکہ قدیم فلسفے کی اَبحاث ایمانی اَسرار کی آگہی نہیں دے سکتیں۔
اِیمانی اَسرار کو جاننے کے لئے حلاوتِ قلبی اور کیفیاتِ عشقی درکار ہیں۔ واضح رہے کہ اَنبیاء و صلحاء
کا اپنے مستغیثین کی اِمداد کرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ مدد کے طالِب کے لئے اللہ تعالی کی بارگاہ میں
دُعا فرمائیں اور اللہ ربّ العزّت اُن کی دُعا کو شرفِ قبولیت عطا کرتے ہوئے متعلقہ شخص کی حاجت پوری کر
دے۔ یہ بالکل اُسی طرح ہے جیسے بڑا کسی بچے کے لئے یا بھائی اپنے بھائی کے لئے دُعا کرے۔ مسئلہ فقط
یہ ہے کہ معترضین اہلِ قبور کی حیات کا اِنکار کرکے اُنہیں دُعا کر سکنے کے قابل بھی نہیں سمجھتے جبکہ
صحیح اِسلامی عقیدہ یہ ہے کہ وہ زِندہ ہیں، اپنے شعور و اِدراک کے تحت زائرین کو پہچانتے ہیں۔ جسم سے
جدا ہو جانے کے بعد رُوح کا شعور مزید کامل ہو جاتا ہے اور شہواتِ بشریہ کے زائل ہو جانے کی وجہ سے
خاکی حجابات اُٹھ جاتے ہیں۔
اِستغاثہ کا معاملہ یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ جس ذات سے مدد طلب کی جاتی ہے وہ اللہ ربّ العزّت ہی ہے
مگر سائل یوں عرض کناں ہوتا ہے کہ گویا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے اللہ تعالی سے
حاجت رَوائی کا خواہشمند ہے۔ وہ اللہ کے مقرّب بندوں کا وسیلہ پکڑ کر اللہ تعالی سے عرض کرتا ہے کہ میں اِن
اَولیاء و صلحاء کے محبین یا محبوبین میں شامل ہوں لہٰذا اُن کی محبت اور قرابت داری کی وجہ سے خصوصی
رحم و کرم کا مستحق ہوں۔ چنانچہ اللہ تعالی تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا دُعا میں مذکورہ
اولیائے کرام کے صدقے اُس شخص کی خطاؤں کو معاف فرما دیتا ہے اور اُس کی حاجات پوری کر دیتا ہے۔
نمازِ جنازہ پڑھنے والوں کا میت کی بخشش کے لئے دُعا کرنا بھی اِسی قبیل سے ہے، کیونکہ جنازہ میں
موجود لوگ اپنے آپ کو اللہ کی بارگاہ میں میّت کی مغفرت کا وسیلہ بناتے اور اُس کے مددگار بنتے ہیں۔
اِزالۂ اِشکالات
اَنبیاء، اَولیاء اور صلحاء و شہداء سے اِستعانت، اِستمداد اور اِستغاثہ اگرچہ عین حق و صواب ہے اور
تعلیماتِ قرآن و سنت سے ثابت ہے، تاہم معترضین چند مَن گھڑت وُجوہات کی بناء پر اِستغاثہ پر شِرک کا
کتبہ آویزاں کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ اِس باب میں ہم اِستغاثہ پر کئے جانے والے چند اہم اِعتراضات کا
باری باری جائزہ لیتے ہوئے قرآن و حدیث سے اِستغاثہ کے ثبوت پر مبنی مدلّل جوابات پیش کریں گے۔
پہلا اِعتراض
اِستغاثہ فی نفسہِ عبادت ہے
اِستغاثہ بالغیر کو شِرک قرار دینے کے لئے سب سے پہلے اِسے داخلِ عبادت کر کے کہا جاتا ہے کہ چونکہ اللہ
کے سوا کسی اور کی عبادت شِرک ہے لہٰذا اللہ ربّ العزّت کے سوا کسی اور سے اِستعانت و اِستغاثہ بھی شِرک ہے۔
مذکورہ مؤقف کو ثابت کرنے کے لئے کئی آیات بھی بطور دلیل پیش کی جاتی ہیں۔ مثلاً اِرشادِ ربانی ہے :
1. أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ.
بھلا مضطرب کی التجاء کو جب وہ اسے پکارتا ہے تو کون سنتا ہے اور (کون اس کے )دکھ درد کو دور کرتا
ہے!
(النمل، 27 : 62)
2. وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ لاَ يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَO أَمْواتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَO
اور جنہیں یہ (مشرک) لوگ اللہ کے سوا پوجتے ہیں وہ کچھ بھی پیدا نہیں کرسکتے بلکہ وہ خود پیدا کئے
گئے ہیںo (وہ) مردے ہیں زندہ نہیں اور انہیں (اتنا بھی) شعور نہیں کہ (لوگ) کب اٹھائے جائیں گےo
(النحل، 16 : 20، 21)
3. وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍO إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا
لَكُمْ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍO
اور جن کو تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ کھجور کی گھٹلی کے ایک چھلکے کے برابر بھی اختیار نہیں
رکھتےo اگر تم اُنہیں پکارو بھی تو وہ تمہاری پکار نہ سن سکیں گے۔ اور اگر (بالفرض) سن بھی لیں تو
تمہاری فریاد کو نہ پہنچ سکیں گے اور قیامت کے دن تمہارے شریک ٹھہرانے سے انکار کردیں گے اور
باخبر کی طرح تمہیں کوئی خبر نہ دے گاo
(فاطر : 35 : 13، 14)
4. وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُواْ مِن دُونِ اللَّهِ مَن لَّا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَومِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَن دُعَائِهِمْ غَافِلُونَO
اور اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہو سکتا ہے جو اللہ کے سوا ایسے (معبودوں) کو پکارے جو قیامت تک اس کی
پکار کو نہ پہنچ سکیں بلکہ ان کو انکے پکارنے کی خبر تک نہ ہوo
(احقاف، 46 : 5)
5. يَدْعُواْ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُ وَمَا لَا يَنفَعُهُ.
وہ (شخص) اللہ کو چھوڑ کر اس کی عبادت کرتا ہے جو نہ اسے نقصان پہنچا سکے اور نہ ہی اسے نفع پہنچا
سکے۔
(الحج، 22 : 12)
6. وَلاَ تَدْعُ مِن دُونِ اللّهِ مَا لاَ يَنفَعُكَ وَلاَ يَضُرُّكَ فَإِن فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِّنَ الظَّالِمِينَO وَإِن يَمْسَسْكَ اللّهُ بِضُرٍّ فَلاَ كَاشِفَ
لَهُ إِلاَّ هُوَ.
اور نہ اللہ کے سوا ان (بتوں) کی عبادت کریں جو نہ تمہیں نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ تمہیں نقصان
پہنچا سکتے ہیں، پھر اگر تم نے ایسا کیا تو بے شک تم اس وقت ظالموں میں سے ہوجاؤگےo اور اگر اللہ
تمہیں کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی اسے دور کرنے والا نہیں۔
(يونس، 10 : 106، 107)
7. يَدْعُواْ لَمَن ضَرُّهُ أَقْرَبُ مِن نَّفْعِهِ.
وہ اسے پوجتا ہے جس کا نقصان اس کے نفع سے زیادہ قریب ہے۔
(الحج، 22 : 13)
مذکورہ بالا آیاتِ مبارکہ میں غیراﷲ کو پکارنے والوں کی مذمّت کی گئی ہے۔ اِسی چیز کو بنیاد بنا کر یہ
اِستدلال کیا جاتا ہے کہ مدد چاہنا اور پکارنا صرف اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہے لہٰذا کسی اور سے کیا گیا
اِستغاثہ صفاتِ اُلوہیت میں شِرک تصور ہوگا۔ یہ اِستنباط بذاتِ خود غلط ہے۔ ذیل میں ہم اِس تصوّر کو واضح
کریں گے۔
ہر اِستغاثہ عبادت نہیں ہوتا
مذکورہ آیاتِ مبارکہ میں لفظِ ''دُعا '' عبادت کے معنی میں اِستعمال ہوا ہے۔ قرآنِ مجید میں لفظِ ''دُعا
'' ہر جگہ عبادت کے معنی میں مستعمل نہیں ورنہ بھٹکے ہوئے اَذہان تو (معاذ اﷲ) انبیاء علیھم السلام
اور خود ذاتِ باری تعالیٰ پر بھی بہتان تراشی سے باز نہیں آتے اور دُور کی کوڑی لا کر اپنے مؤقف کو
ثابت کرنے کی سعیء ناکام میں مصروف نظر آتے ہیں۔ مثلاً قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالی ہے :
1. فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ.
تو آپ فرما دیں کہ آجاؤ ہم (مل کر) اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو بلا لیتے ہیں۔
(آل عمران، 3 : 61)
2. فَجَاءَتْهُ إِحْدَاهُمَا تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاءٍ قَالَتْ إِنَّ أَبِي يَدْعُوكَ لِيَجْزِيَكَ أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا.
چنانچہ ان (لڑکیوں) میں سے ایک شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی ان کے پاس آئی (اور) کہا میرے باپ آپ
کو بلاتے ہیں تاکہ آپ نے جو ہماری خاطر (ہماری بکریوں کو) پانی پلایا تھا اس کا بدلہ دیں۔
(القصص، 28 : 25)
3. ثُمَّ اجْعَلْ عَلَى كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا.
پھر (انہیں ذبح کر کے) ان کا ایک ایک حصہ ایک ایک پہاڑ پر رکھ دو، پھر انہیں بلاؤ وہ تمہارے پاس
دوڑتے ہوئے آجائیں گے۔
(البقره، 2 : 260)
4. يَوْمَ نَدْعُواْ كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ.
جب ہم لوگوں کے ہر طبقہ کو ان کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے۔
(الاسراء، 17 : 71)
اِس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں سیدنا عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنھم اِمامِ زماں کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے
ہیں :
بِإِمَامِ زَمَانِهِمُ الَّذِیْ دَعَاهُمْ فِیْ الدُّنْيَا إِلَی ضَلَالَةٍ أوْ هُديً.
اِس سے وہ اِمامِ زماں مُراد ہے جس کی دَعوت پر دُنیا میں لوگ چلے ہوں، خواہ وہ (دَعوت) گمراہی کی طرف ہو
یا ہدایت کی طرف۔
(تفسير معالم التنزيل، 3 : 126)
مُراد یہ ہے کہ ہرقوم اپنے سردار کے پاس جمع ہوگی جس کے حکم پر دُنیا میں چلتی رہی اور انہیں اﷲ ربّ
العزّت خود اُسی کے نام سے پکارے گا کہ ''اَے فُلاں کے متّبعین! تمہارا اِنجام اس کے ساتھ ہے''۔
اَلغرض مذکورۃُ الصّدر آیاتِ بینات میں لفظِ دُعا کا معنی عبادت کرنے سے بذاتِ خود شِرک کا راستہ کھلتا ہے
لہٰذا معلوم ہوا کہ اگر دُعا کی نسبت کافر اور مشرک کی طرف کریں تو اس کا معنی عبادت ہوگا ورنہ سیاق
و سباق سے معنی بدلتا رہے گا۔ اِستغاثہ کے عدم جواز میں جو آیات بطور اِستدلال پیش کی جاتی ہیں، اُن
میں دُعا کی نسبت کفار و مشرکین کی طرف ہے لہٰذا وہاں معنی عبادت ہی کیا جائے گا لیکن اُن سے اِستغاثہ
کا عدم جواز بالکل ثابت نہیں ہوتا، اِس لئے کہ جن مقبولانِ بارگاہِ الٰہی سے اِستغاثہ کیا جاتا ہے اُنہیں
قطعاً قابلِ عبادت نہیں سمجھا جاتا۔
دُوسرا اِعتراض
مافوق الاسباب اُمور میں اِستغاثہ شِرک ہے
مذکورہ بالا اِعتراض کی بنیاد ایک تقسیم پر مبنی ہے۔ اِستغاثہ کی بحث کے دوران اَسباب کے ضمن میں عام
طور پر اُمور کی دو قسمیں بیان کی جاتی ہیں :
1۔ اُمورِ عادیہ۔۔۔۔۔۔ یعنی۔۔۔۔۔۔ اُمور ما تحت الاسباب
2۔ اُمورِ غیر عادیہ۔۔۔۔۔۔ یعنی۔۔۔۔۔۔ اُمور ما فوق الاسباب
اِس تقسیم کے تحت ما تحت الاسباب ہونے کے ناطے اُمورِ عادیہ میں اِستغاثہ کو جائز سمجھا جاتا ہے، جبکہ
اُمورِ غیر عادیہ جو ما فوق الاسباب ہوتے ہیں، میں اِستغاثہ کو شِرک قرار دیا جاتا ہے۔ وہ کام جو
بالعموم اَسباب کے ذریعے سراِنجام پاتے ہیں ان عادی اَسباب کو ترک کر کے مدد چاہنا اِستغاثہ مافوق
الاسباب کہلاتا ہے اور اَسبابِ عادیہ کو اِختیار کرتے ہوئے مدد چاہنا ماتحت الاسباب ہے، یعنی اس میں کسی
سے مدد چاہتے ہوئے ان اسباب کو اختیار کرلیا جاتا ہے جو بالعموم اس امر سے متعلق ہوتے ہیں۔ اِس
تقسیم کے بعد یہ امر پیشِنظر رہنا چاہیئے کہ اُن کے نزدیک دُنیوی حوائج میں آپس میں ایک دوسرے کی
مدد کرنا اور باہمی اُمور میں تعاون کرنا اِستغاثہ ماتحت الاسباب ہے اور یہ جائز ہے، جیسے اِرشادِ
ربانی ہے :
وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰي.
اور نیکی اور تقویٰ (کے کاموں ) میں ایک دوسرے سے تعاون کیا کرو۔
(المائده، 5 : 2)
ما تحت الاسباب اُمور میں اِستغاثہ کو رَوا رکھنے کے ساتھ ساتھ اُن کے نزدیک وہ اِستغاثہ جو ما فوق
الاسباب اُمور میں سے ہو وہ حرام و ناجائز ہے۔
اِعتراض کا علمی محاکمہ
پہلا نکتہ : اِستغاثہ ماتحت الاسباب اور اِستغاثہ مافوق الاسباب (اُمورِ عادیہ و غیرعادیہ) میں سے
مؤخرالذکر کو شِرک قرار دیا جا رہا ہے جبکہ اِس تقسیم اور اس کے تحت پائی جانے والی ایک قسم کے جواز
اور دُوسری کے عدم جواز کا قرآن و سنت میں کوئی ذکر نہیں۔ یہ ایک خود ساختہ تقسیم ہے اور اِستنباط و
اِستخراج کا نتیجہ ہے۔ کسی قسم کی کوئی نصِ قرآنی اِستغاثہ کے ضمن میں اَسباب کے حوالے سے پائی جانے
والی تقسیم پرشاہد نہیں۔
یہاں ہمیں یہ بات بھی ذِہن نشین رکھنی چاہیئے کہ اُمورِ مافوق الاسباب میں بھی کسی نہ کسی سطح کے
اَسباب ضرور کارفرما ہوتے ہیں۔ ''کُنْ فَیَکُوْن'' کے علاوہ کوئی اَمر مافوق الاسباب نہیں۔ مگر چونکہ بعض
اُمور کے اَسباب ہمیں ظاہری طور پر نظر نہیں آتے اِس لئے ہم اُنہیں عام طور پر اُمورِ مافوق الاسباب کا
نام دیتے ہیں۔
دُوسرا نکتہ : سورۂ فاتحہ کی جس آیتِ کریمہ کو مسئلہ کی بنیادی کڑی اور اصل سمجھا جاتا ہے خود اُس
میں اَسباب کے تحت کی جانے والی کسی تقسیم کا قطعاً کوئی ذِکر نہیں کیا گیا اور ''إِيَّاكَ نَسْتَعِين'' کہہ
کر مدد طلب کرنے کو مطلق رکھا گیا ہے۔ قاعدہ ہے کہ ألْمُطْلَقُ يَجْرِيْ عَلَي إِطْلَاقِه (مطلق اپنے اِطلاق پر جاری
رہتا ہے) اِس لئے ہم کسی خود ساختہ تقسیم کے تحت یہ معنی متعین نہیں کر سکتے کہ اَے باری تعالی! ہم
تُجھ سے صرف مافوق الاسباب اُمور میں مدد چاہتے ہیں کیونکہ وہ تیرے علاوہ اور کوئی نہیں کرسکتا، رہی
بات ماتحت الاسباب اُمور کی تو اُن میں چونکہ تیرے علاوہ حصولِ مدد کے اور بھی کثیر ذرائع موجود ہیں اِس
لئے اُن معاملات میں تُجھ سے مدد مانگنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں۔ اِس طرح کی تقسیم کم علمی اور نادانی
کے سِوا کچھ نہیں اور یہی صحیح معنوں میں شِرک میں مبتلا کرنے والی ہے۔
تیسرا نکتہ : تفہیمِمسائل، رفعِ اِلتباس اوربعض اشیاء کو بعض سے ممیز کرنے کے لئے تقسیمات کی جاتی
ہیں، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ''إِيَّاكَ نَسْتَعِين'' میں مذکورہ تقسیم کی عدم ضرورت کے باوجود تقسیم
کرنے اور پھر ماتحت الاسباب میں اِستغاثہ کو جائز سمجھنے کا کیا جواز ہے؟ جبکہ مافوق الاسباب میں شِرک
کے فتاویٰ جائز اور درُست قرار دیئے جا رہے ہیں۔ اگر ''إِيَّاكَ نَسْتَعِين'' میں اِستغاثہ حقیقی اور اِستغاثہ
مجازی کی تقسیم کی جائے تو پھر اُس کو تسلیم کیوں نہیں کیا جاتا؟ فی الواقع ''إِيَّاكَ نَسْتَعِين'' میں
تقسیم تو ہے مگر ماتحت الاسباب اور مافوق الاسباب کی بجائے حقیقت اور مجاز کی ہے۔
صحیح اِسلامی عقیدہ
''إِيَّاكَ نَسْتَعِين'' کے کلمات میں بندہ باری تعالیٰ سے عرض کناں ہوتا ہے کہ اے اللہ! ہم اپنی ضروریات کی
کفالت کے لئے ظاہراً کسی سے بھی مدد کے طلبگار ہوں اُس کو مُستغاثِ حقیقی خیال نہیں کرتے بلکہ مُستغاثِ
حقیقی فقط تجھی کو سمجھتے ہیں کیونکہ تیری عدم رضا کی صورت میں کوئی ہمارا مددگار اور پُرسانِ حال
نہیں ہو سکتا۔ ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ خواہ ہم ڈاکٹر کے علاج معالجہ سے شفایاب ہو رہے ہوں یا کسی
بزرگ کے دُعا سے، کسی کو بھی مستعانِ حقیقی خیال نہیں کرتے بلکہ حقیقی مددگار تو اللہ ربّ العزّت ہے۔ ہم
دوا اور دُعا دونوں کو سبب سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے کیونکہ اصل مُستغاث اور کارساز تو ہی ہے۔
چوتھا نکتہ : اب غور طلب بات یہ ہے کہ دونوں تقسیموں، ''مافوق الاسباب اور ماتحت الاسباب'' اور
''حقیقت و مجاز'' میں تطبیق کیونکر ممکن ہے؟ بلا شبہ بعض اُمورِ حیات میں ماتحت الاسباب اور مافوق
الاسباب کی تقسیم رَوا ہے۔ یہ امرِِ واقعہ ہے اور فہم و شعور میں سمانے والی چیز ہے جس کا ثبوت لانے
کی بھی ضرورت نہیں۔ کچھ اُمور ماتحت الاسباب حل ہوجاتے ہیں اور کچھ اُمور کا حل مافوق الاسباب تلاش
کرنا پڑتا ہے۔ اَسباب دراصل دونوں صورتوں میں پائے جاتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ماتحت الاسباب اُمور
میں اَسباب بدیہی ہوتے ہیں جبکہ مافوق الاسباب اُمور میں اَسباب عام آدمی کی نظر سے اوجھل ہوتے ہیں۔
ماتحت الاسباب کو ظاہری اور مافوق الاسباب کو رُوحانی اور باطنی اَسباب کہنا زیادہ موزوں ہو گا۔ مافوق
الاسباب اُمور میں اگرچہ اسبابِ عادیہ کا ترک ہوتا ہے مگر اسبابِ غیر عادیہ کا وُجود تو بہرطور یہاں
بھی پایا جاتا ہے۔ گویا حقیقی معنوں میں کوئی بھی اُمور مطلقاً مافوق الاسباب نہیں ہوتے۔ فرق صرف
اِتنا ہے کہ ماتحت الاسباب میں اسباب ظاہری ہوتے ہیں جو عام بندے کو دِکھائی دے جاتے ہیں۔ جبکہ مافوق
الاسباب میں اسباب غیر عادیہ ہونے کی وجہ سے فردِ بشر کی عام نظر سے دکھائی نہیں دے پاتے۔
جب انبیاء، اولیاء، صلحاء یا کسی بھی فردِ بشر کو عالمِ اسباب کے اندر رہتے ہوئے اسی سے متعلق مدد
طلب کی جائے تو وہ الفاظ جو حصولِ مدد کے لئے استعمال ہوں اُنہیں حقیقی معنی پر محمول کیا جائے گا،
مگر مستغاثِ حقیقی اس صورت میں بھی اللہ تبارک و تعالی کی ذاتِ برحق ہوگی۔ اوراُمورِ عادیہ کے ماوراء
اَسباب کی دُنیا میں جب مدد طلب کی جائے گی تو اِستغاثہ کے لئے اِستعمال ہونے والے اَلفاظ مجاز اً
اِستعمال ہوں گے جبکہ اِعتقاد اس صورت میں بھی اللہ ربّ العزّت ہی کے مُستغاثِ حقیقی ہونے کا ہوگا۔ یعنی
معنی حقیقی دونوں صورتوں میں سے کسی میں بھی نہیں پایا جائے گا۔ فرق صرف اِتنا ہے کہ ماتحت الاسباب
میں لفظ کا اِستعمال حقیقت پر مبنی تھا اور مافوق الاسباب میں حقیقی معنی مراد لینا متعذر تھا، اِس
لئے لفظ کو بھی حقیقت پر محمول نہ کیا گیا۔ الغرض معنا اور عقیدۃ اِستغاثہ حقیقی اللہ ربّ العزّت ہی کے
لئے خاص ہے۔ (توحید اور شِرک سے متعلقہ اَبحاث کے مطالعہ کے لئے راقم کی کتاب ''عقیدۂ توحید اور
حقیقتِ شِرک'' ملاحظہ فرمائیں)۔
حقیقت و مجاز کی تقسیم لابدّی ہے
نفسِ اِستغاثہ کا اِنکار کرنے والے ایک طبقے کا مؤقف یہ ہے کہ ماتحت الاسباب اُمور میں اِستغاثہ جائز
ہے، جبکہ اِس سلسلے میں حقیقت و مجاز کی کوئی حیثیت نہیں۔۔۔۔ اب اس مؤقف کے قائل لوگوں سے سوال یہ
ہے کہ اگر ماتحت الاسباب میں اِستغاثہ کو جائز اور درست مانا جائے اور اِستغاثہ حقیقی و مجازی کو
تسلیم نہ کیا جائے تو پھر ماتحت الاسباب اُمور میں مُستغاثِ حقیقی کون ہوگا؟۔۔۔ اگر مریض کسی ڈاکٹر کے
پاس علاج کے لئے جائے تو مُستعانِ حقیقی کون ہوا؟۔۔۔ کیا مُستعانِ حقیقی وہ ڈاکٹر جو مریض کے معالجے کی
تدبیر کر رہا ہے یا کہ اللہ تعالی؟۔۔۔ اگر اِس کا جواب یہ ہو کہ دُنیوی اُمور میں بھی مُستعانِ حقیقی اللہ ہی
ہے تو مافوق الاسباب اور ماتحت الاسباب میں باہم فرق کیا رہا؟۔۔۔ مافوق میں اسی اِستغاثہ کا نام شِرک
اور ماتحت الاسباب میں اجازت! یہ کہاں کا اصول ہے کہ حقیقت و مجاز کا فرق ملحوظ رکھے بغیر مُستعانِ
مطلق بھی اللہ کو قرار دیا جائے اور اُس کے غیر سے مدد بھی طلب کرتے پھریں؟ حالانکہ قرآن مجید میں
فرمایا گیا ہے :
وَ رَبُّنَا الرَّحْمٰنُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَo
اور ہمارا ربّ بے حد رحم فرمانے والا ہے اسی سے مدد طلب کی جاتی ہے ان (دل آزار) باتوں پر جو (اے
کافرو!) تم بیان کرتے ہوo
(الانبياء، 21 : 112)
دُوسری صورت میں اگر اِس کا جواب یہ دِیا جائے کہ اُمورِ ماتحت الاسباب میں مستغاثِ حقیقی اللہ تبارک و
تعالیٰ نہیں اِنسان ہی ہے تو اس سے تعدّد لازِم آئے گا۔۔۔ جو یقیناً شِرک ہے۔۔۔ کہ دُنیوی کاموں میں
مستعان بندہ ہو اور مافوق الاسباب کاموں میں اللہ تعالی۔ اِس دُوئی کی بنا پر جب بندے کو مستغاث و
مستعان تسلیم کیا جائے تو یہ بالکل اُسی طرح کا شِرک قرار پائے گا جو کفار و مشرکینِ مکہ کا تھا کہ
وہ دُنیوی اُمور میں بندوں کو مددگار تسلیم کرتے اور دیگر اُمور میں اللہ تعالی کو مددگار مانتے تھے۔
اور اگر یہ بات کی جائے کہ دنیاوی اُمور میں بھی مستعان اللہ ہی ہے تو پھر اس کے غیر سے مدد مانگنا
کیونکر درست ہوگیا؟
فیصلہ کن بات یہ ہے کہ جب معترضین کے نزدیک اُمورِ ماتحت الاسباب میں مُستغاثِ حقیقی اللہ تعالی ہے اور
مخلوق سے اِستعانت فقط ظاہری اور مجازی معنی میں ہے، حقیقی معنی میں نہیں،۔۔۔ تو اِس صورت میں ایک
سوال یہ اُبھرتا ہے کہ اگر ماتحت الاسباب میں غیر سے مدد چاہنا اِستغاثہ مجازی ہونے کی وجہ سے جائز
ہے تو مافوق الاسباب میں مجاز ہونے کے باوجود کیسے حرام ہوگیا؟ جبکہ وہاں بھی اِستغاثہ حقیقی کی
بجائے اِستغاثہ مجازی ہی تھا۔
مافوق الاسباب اُمور میں مجاز کا جواز
مافوق الاسباب اُمور میں مجاز کا اِستعمال اِس لحاظ سے بھی جائز ہے کہ وہ بظاہر تو اگرچہ اِستغاثہ ہوتا
ہے مگر اِس سے مفہوم اور مُراد توسل ہوا کرتا ہے، اور مستعانِ حقیقی اللہ تعالی ہی کو جانا جاتا ہے۔
مزید یہ کہ اِستغاثہ کا مجازی معنی میںاِستعمال قرآنِ مجید میں کئی صورتوں میں ہوا ہے، جن میں سے
اکثر استعمالِ مجاز ما فوق الاسباب کے لئے ہوا ہے۔ قرآنِ حکیم میں مجاز کا اِستعمال جس کثرت کے ساتھ
ہوا ہے اُس میں سے چند مقامات کا ہم یہاں ذِکر کریں گے تاکہ قارئین کے اذہان و قلوب میں یہ تصوّر
اچھی طرح سے راسخ ہو جائے کہ حقیقت و مجاز کی تقسیم سے اِنکار کی صورت میں کس قدر خطرناک نتائج
برآمد ہوسکتے ہیں۔
جبرئیل علیہ السلام پر شِرک کا فتویٰ؟
حضرت جبرئیل علیہ السلام جب اﷲ کے اِذن سے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی وِلادت کے سلسلے میں حضرت مریم
علیھا السلام کے پاس اِنسانی رُوپ میں آئے تو اُن سے کہا :
اِنَّمَا أنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ لِأهَبَ لَکِ غُلَاماً زَکِيًّاo
(جبرئیل نے) کہا میں تو فقط تیرے ربّ کا بھیجا ہوا ہوں (اس لئے آیا ہوں) کہ میں تجھے ایک پاکیزہ
بیٹا عطا کروںo
(مريم، 19 : 19)
مذکورہ بالا آیت میں جبرئیل امین علیہ السلام کا قول اُمورِ مافوق الاسباب میں سے ہے کیونکہ شادی اور
اِزدواجی زندگی کے بغیر بیٹے کا ہونا اور اس پر یہ کہنا کہ : ''میں تجھے پاکیزہ بیٹا دوں'' مافوق
الاسباب اُمور میں مدد کی بہت بڑی قرآنی مثال ہے اور اسبابِ عادیہ کے بغیر اِس دنیا میں اِس کا تصوّر
بھی محال ہے۔
قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ اگر کوئی شخص محض توسل کی نیت سے اﷲ ربّ العزّت کے کسی برگزیدہ بندے کے
وسیلے سے اولاد طلب کرے تو کچھ نادان دوست فی الفور شِرک کا فتویٰ لگا دینے سے نہیں چوکتے جبکہ کوئی
غیرخدا۔۔۔ جبرئیل علیہ السلام۔۔۔ کہے کہ ''میں بیٹا دیتا ہوں'' اور اﷲ تعالیٰ خود اُس کا ذِکر قرآنِ
مجید میں کرے تو کیا یہ اُسی طرح شِرک نہیں ہوگا؟ مانگنے کی صورت میں تو مانگنے والا پھر بھی اِنسان
ہی رہتا ہے مگر یہ کہنا کہ ''میں بیٹا دیتا ہوں'' اِس جملے کو اگر مجازی معنی پر محمول نہ کیا جائے
تو حقیقی معنوں میں تو یہ سراسر خدا بننے کے مترادف ہے۔ اولاد سے نوازنا فعلِ اِلٰہی ہے اور بندے کا
کام اُس سے اُس کی عطا کی بھیک مانگنا ہے۔ بندے کا غیراﷲ سے مانگنا اگر شِرک ہے تو پھر کسی دینے والے
غیرِخدا کا قول یہ کہ ''میں بیٹا دیتا ہوں'' تو بدرجۂ اولیٰ شِرک قرار دیا جانا چاہئیے۔ اِس مقام
پرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جبرئیلِ امین علیہ السلام تو ''لِأهَبَ لَکِ غُلَاماً'' کہہ کر بھی (معاذ اﷲ) مشرک
نہ ہوئے بلکہ اُن کا قول، قولِ حق رہا تو اُن کے اس قول کی آخر کیا توجیہہ ہوگی؟
جواب : یہ قول تو اگرچہ روح الامین کا ہے کہ میں بیٹا دیتا ہوں مگر اِس سے مُراد یہ ہے کہ وہ بیٹا جو
اللہ تبارک و تعالی عطا فرمانے والا ہے ''میں'' اُس کا سبب، وسیلہ اور ذریعہ بنتا ہوں۔ پس مذکورہ آیتِ
کریمہ میں ''لِأهَبَ لَکِ غُلَاماً'' میں مدد دینے کا عمل پایا گیا مگر اس سے مُراد محض توسل ہے اور ان کا
بیٹا دینے کا قول مجازِ قرآنی کی ایک عمدہ مثال ہے۔
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام پر شِرک کا فتویٰ؟
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے جب اپنی اُمت کے سامنے اِعلائے کلمۂ حق کیا اور اُنہیں شِرک سے باز آنے اور
اﷲ وحدہ لا شریک کی وحدانیت کی طرف بلانا چاہا تو اُنہوں نے اپنی قوم کو مختلف معجزات دِکھائے۔ قرآنِ
مجید میں آپ کی اس دعوت کا ذکر یوں آیا ہے :
أَنِّي قَدْ جِئْتُكُم بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللّهِ
وَأُبْرِىءُ الْأَكْمَهَ والْأَبْرَصَ وَأُحْيِـي الْمَوْتَى بِإِذْنِ اللّهِ وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً
لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَO
بے شک میں تمہارے پاس تمہارے ربّ کی جانب سے ایک نشانی لے کر آیا ہوں، میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے
کی شکل جیسا (ایک پتلا) بناتا ہوں پھر میں اس میں پھونک مارتا ہوں سو وہ اللہ کے حکم سے فوراً اڑنے والا
پرندہ ہو جاتا ہے۔ اور میں مادر زاد اندھے اور سفید داغ والے کو شفا یاب کرتا ہوں اور میں اللہ کے
حکم سے مردے کو زندہ کر دیتا ہوں اور جو کچھ تم کھا کر آئے ہو اور جو کچھ تم اپنے گھروں میں جمع
کرتے ہو میں تمہیں (وہ سب کچھ) بتا دیتا ہوں، بے شک اس میں تمہارے لئے نشانی ہے اگر تم ایمان
رکھتے ہوo
(آل عمران، 3 : 49)
اس آیتِ کریمہ میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے دستِ اقدس سے کل پانچ معجزات کے ظہور کا ذکر آیا ہے :
1۔ مٹی سے پرندہ بنا کر اُسے زِندہ کرنا
2۔ مادر زاد اَندھے کا علاج
3۔ سفید داغ (برص) کا علاج
4۔ اِحیائے موتیٰ (مُردوں کو زندہ کرنا)
5۔ غیب کی خبریں سرِعام بتانا
یہ پانچ معجزات اللہ ربّ العزّت نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو عطا فرمائے تھے اور آپ علیہ السلام علی
الاعلان ان کا اِظہار بھی فرمایا کرتے تھے، جس کی تصدیق خود باری تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرمائی ہے۔
یہاں فقط اِتنا سمجھ لینا کافی ہوگا کہ اِس آیتِ کریمہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں
تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے ایک نشانی لایا ہوں ''أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم'' میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے
کی مورت بناتا ہوں ''أَجْعَلُ'' کی بجائے ''أَخْلُقُ'' کا لفظ اِستعمال کیا گیا۔ اگر آپ غور کریں تو مذکورہ
بالا آیتِ مبارکہ میں ساری بحث ہی حقیقت و مجاز کی ہے۔
حقیقی کارساز اللہ ربّ العزت ہی ہے
مذکورہ بالاآیاتِ کریمہ میں بھی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام مستعانِ حقیقی نہیں ہیں بلکہ اللہ ہی حقیقی مدد
کرنے والا ہے۔ البتہ ان الفاظ کا اِستعمال فقط مجازا ہوا ہے اور ساری بحث الفاظ پر ہے، لہٰذا اُصول
اور ضابطہ یہ ہوا کہ ایسے الفاظ کا اِستعمال مجازا جائز ہے۔ مذکورہ آیت میں تمام صیغے کلام کرنے
والے کے ہیں مگر اِس کام کا حقیقت میں کارساز اللہ ہے گویا حقیقت باذن اللہ ہے۔ کلمات میں حقیقت و مجاز
کی قرآنِ کریم کے حوالے سے یہ بہترین مثال ہے۔
کیا یہ معجزہ نہیں؟
اِس موقع پر کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ سارا ماجرا تو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا معجزہ ہے اور
اِستغاثہ کی بحث میں معجزے کا کیا کام کیونکہ اُس سے تو یہاں بحث ہی نہیں۔ اِس کا سادہ سا جواب یہ ہے
کہ ''معجزہ تو مریضوں کا شفایاب ہوجانا ہے نہ کہ اُن کا اپنی طرف شفا دینے کی نسبت کرنا''۔ اصل بات
یہی ہے کہ اُن کا اپنی طرف ان مافوق الفطرت اَعمال کی نسبت کرنا مجاز ہے اور شِفا اور بیماری درحقیقت
اﷲ ربّ العزّت کی طرف سے ہے۔ جب یہ بات اٹل ہے کہ مادر زاد اندھے کو اور سفید داغ والے کو شفاء دینے
والا اللہ تبارک و تعالی ہی ہے تو پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ کیوں فرمایا کہ ''میں شفا دیتا
ہوں''؟ چاہیئے تو یوں تھا کہ اِرشاد فرماتے کہ اللہ تعالیٰ میرے ہاتھ پھیرنے سے مادرزاد اَندھے کو
بینائی دیتا ہے اور کوڑھی کو شفا عطا فرماتا ہے، معجزے کی شانِ اعجازی میں تب بھی کوئی فرق نہ آتا
مگر اُنہوں نے مجازاً اِن اَلفاظ کی نسبت اپنی طرف کی۔
چوتھا قول اُنہوں نے فرمایا : وَ أُحْیِ الْمَوْتٰی بِإِذْنِ اﷲِ '' اور میں مُردوں کو اﷲ کے اِذن سے زندہ کرتا
ہوں''۔ یہاں تو اِنتہاء ہوگئی۔۔۔ ایسا نہیں فرمایا کہ تم مُردہ لے آؤ، میں اللہ سے اِلتجاء کروں گا، اللہ
میری دُعا سے زندہ کردے گا، بلکہ یوں اِرشاد فرمایا : ''میں مُردوں کو اللہ کے اِذن سے زِندہ کرتا ہوں''۔
اِس کا مطلب یہ ہوا کہ ان صیغوں اور کلمات کا اِستعمال اور اُن کی کسی فردِ بشر کی طرف نسبت مجازی طور
پر جائز ہے۔ مذکورہ آیتِ کریمہ میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا اپنی طرف اِن اَعمال و اَفعال کی نسبت
کرنا نسبتِ مجازی ہونے کی بناء پر درست ہے اور اِسی آیت کے دُوسرے حصے میں آپ نے بِإِذْنِ اﷲ کے اَلفاظ کے
ذریعے حقیقی کارساز اللہ ربّ العزّت ہی کو قرار دیا۔
پانچویں بات حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ فرمائی : وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ ''اور
میں تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو''۔ اس میں کوئی ذِکر نہیں
کہ اللہ تعالیٰ کے مطلع فرمانے سے ایسا کرتا ہوں، بلکہ فرمایا : أُنَبِّئُكُم میں تمہیں خبر دیتا ہوں۔ اِن
الفاظ میں صراحت کے ساتھ علمِ غیب کا پہلو پایا گیا کیونکہ اِس بات کا علم کہ کسی نے کون سی چیز
کھائی ہے علمِ غیب ہے جو باری تعالیٰ کے بتائے بغیر کسی کو معلوم نہیں ہو سکتا۔ سیدنا عیسیٰ علیہ
السلام نے یوں نہیں فرمایا کہ خداوندِ قدّوس مجھے آگاہ فرماتا ہے۔ اگرچہ واقعتا حقیقت یہی ہے کہ اﷲ
ہی آگاہ کرتا ہے مگر اُنہوں نے اِس بات کا اپنے اَلفاظ میں اِظہار نہیں فرمایا اور مجازی طور پر اِس
غیب کی نسبت اپنی طرف کی، جس سے یہ ظاہر ہوا کہ غیراﷲ کی طرف علمِ غیب کی نسبت مجازی طور پر جائز
ہے ورنہ رسولِ خدا سے یہ فعل ہرگز سرزد نہ ہوتا۔
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کے سامنے دعوی نبوت کے سلسلے میں جو اِعلانات فرمائے آج کے نام
نہاد مؤحّدین کے مؤقف کی روشنی میں وہ سب کے سب شِرک کی زد میں آئے بغیر نہیں رہتے۔ اِس طرح کے طرزِ
فکر سے تو اَنبیائے کرام جو خالصتاً توحید ہی کا پیغامِ سرمدی لے کر انسانیت کی طرف مبعوث ہوتے رہے
ہیں، اُن کی قبائے عصمتِ نبوّت بھی تار تار ہوئے بغیر نہیں رہتی اور وہ بھی شِرک کے فتویٰ سے نہیں بچ
سکتے۔
اﷲ تعالیٰ پر شِرک کا فتویٰ؟
سورۂ آل عمران کی مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ میں تو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے اَلفاظ مذکور ہیں کہ میں
اللہ کے اِذن سے مُردے زِندہ کرتا ہوں، مٹی سے پرندوں کی مُورتیں بنا کر اُن میں جان ڈالتا ہوں وغیرہ، مگر
مندرجہ ذیل آیتِ کریمہ میں تو خود اللہ تعالیٰ بھی اُن کے اِس فعل کی تصدیق فرما رہا ہے۔ اِرشادِ باری
تعالیٰ ہے :
وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْنِي
اور جب تم میرے حکم سے مٹی کے گارے سے پرندے کی شکل کی مانند (مورتی) بناتے تھے۔
(المائده، 5 : 110)
اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا کہ اے عیسیٰ علیک السلام میں نے تیرے لئے مٹی کے پرندے بنائے اور زِندہ کر
دیئے، تیرے لئے مادر زاد اَندھوں کو بینائی دی اور برص زدہ لوگوں کو شفا دی۔ با وجود یہ کہ اللہ تعالی
توحیدِ خالص کے حامل سادہ لوح مؤحّدین کی حسبِ خواہش حقیقت پر مبنی اِس اُسلوب کو اپنا بھی سکتا تھا،
مگر اِس کے باوجود اُس خالق و مالک نے فرمایا :
فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي
پھر تم اس میں سے پھونک مارتے تھے تو وہ (مورتی) میرے حکم سے پرندہ بن جاتی تھی۔
(المائده، 5 : 110)
رُوح پھونکنا دَرحقیقت فعلِ اِلٰہی ہے
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی میں رُوح پھونکنا اور جان ڈالنا خالقِ کائنات ہی کا کام ہے۔ مگر اُس نے
خود سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے لئے فرمایا : فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي ''پھر تو اُس میں پھونک
مارتا تو وہ میرے حکم سے اُڑنے لگتی''وَتُبْرِىءُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ بِإِذْنِي ''اور جب تم مادر زاد اندھوں اور
کوڑھیوں کو میرے حکم سے اچھا کر دیتے تھے'' وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوتَى بِإِذْنِي ''اور جب تم میرے حکم سے مُردوں
کو ( زِندہ کرکے قبر سے) نکال (کھڑا کر) دیتے تھے''۔ اِن آیاتِ مبارکہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ
ایسے کلمات کا غیراﷲ پر اِطلاق مجازاً جائز ہے۔ اِن کلمات کو خود اللہ ربّ العزّت نے اِستعمال فرمایا اور
انبیائے کرام علیھم السلام نے بھی اِستعمال کیا حالانکہ ایسے کلمات کی ادائیگی فرمانا اُن کی مجبوری
نہ تھی۔ اﷲ ربّ العزّت کا اپنے کلامِ مجید میں اِن اَلفاظ کو مجازی معنی میں اِستعمال کرنا نہ صرف مجازی
معنی کے جواز کا سب سے بڑا ثبوت ہے بلکہ اس کے سنتِ اِلٰہیہ ہونے پر بھی دالّ ہے۔
اِس ساری بحث سے ظاہری اور باطنی اَسباب کے لئے ایک خاص ضابطہ بھی میسر آتا ہے کہ تمام مافوق الاسباب
اُمور میں اَلفاظ اگرچہ براہِ راست بندے اور مخلوق کی طرف منسوب ہوں تب بھی فاعلِ حقیقی اللہ تعالی ہی کو
گردانا جائیگا کیونکہ کارسازِ حقیقی وُہی ہے۔
تیسرا اِعتراض
اِستغاثہ بالغیر میں سلطۂ غیبیہ کا شائبہ ہے
اِستغاثہ بالغیر کو شِرک قرار دینے کی تیسری وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ دُور سے مدد مانگنا مافوق
الاسباب ہے، اور جس غیراﷲ سے مدد مانگی جارہی ہے اِس عمل سے اُس کے لئے سلطۂ غیبیہ۔۔۔ یعنی غیبی قوّت
و اِقتدار۔۔۔ کا اِقرار لازِم آتا ہے۔ جب آپ نے اُسے دُور سے پکارا تو گویا آپ کا یہ عقیدہ و نظریہ ہے
کہ اُس کے پاس غیبی اقتدارِ اعلیٰ اور تصرّفِ کاملہ حاصل ہے اور اس طرح کا اِعتقاد رکھنا شِرک ہے۔
خودساختہ اِعتقادی فتنے کا ردّ
خودساختہ علمی مغالطے اِس مسئلہ کو مزید اُلجھا کر رکھ دیتے ہیں۔ یہ خیال کرنا سراسر غلط ہے کیونکہ
جس چیز کو یہاں سلطۂ غیبیہ کا نام دیا جا رہا ہے دراصل وہ رُوحانی اِستعداد ہے جو اﷲ تعالیٰ اپنے
محبوب و مکرّم بندوں کو عطا کرتا ہے۔ اللہ ربّ العزّت کی عطا کردہ اِس رُوحانی قوت و تصرّف کو سلطۂ غیبیہ
(مطلق قوّتِ مقتدرہ) کا نام دے کر بہت بڑا اِعتقادی فتنہ پیدا کیا جا رہا ہے۔ سلطۂ غیبیہ کی حقیقت وہ
ہرگز نہیں جو عام طور پر ردِّاِستغاثہ کے ضمن میں بیان کی جاتی ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اِس سطح کا
سلطہ تو آج ہر عام اِنسان حتی کہ غیرمسلموں کو بھی بخوبی حاصل ہے۔ سلطۂ غیبیہ کے ضمن میں ہم
دورِحاضر کی سائنسی ترقی سے اِنٹرنیٹ کی مِثال دینا مناسب خیال کریں گے۔ مادّی ترقی کی اِس سائنسی دُنیا
میں جہاں گلوبل وِیلج کا اِنسانی تصوّر حقیقت کا رُوپ دھار رہا ہے، کمپیوٹر کی دُنیا میں فاصلے سمٹ کر
رہ گئے ہیں۔ ایک کروڑ کے لگ بھگ کمپیوٹرز کے نیٹ ورک پر مُشتمل اِنٹرنیٹ نے پوری دُنیا کو رائی کے
دانے میں سمیٹ لیا ہے۔ آج سائنسی ترقی کا یہ عالم ہے کہ موجودہ دَور کا عام آدمی بھی بند کمرے میں
بیٹھ کر اپنی ہتھیلی پر موجود رائی کے دانے کی طرح تمام دُنیا کا مشاہدہ کرنے پر قادِر ہے۔ یہاں
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اِنٹرنیٹ اور اُس سے منسلک بے شمار کمپیوٹرز کے بے حِس مشینی آلات سلطۂ
غیبیہ کے حامل ہیں؟؟؟ مسئلہ فقط یہ ہے کہ خلطِ مبحث کے عادی اَذہان اِنسانی اِستعداد کے زائیدہ آلات کے
اِستعمال سے حاصل ہونے والے نتائج کو تو سلطۂ غیبیہ اور شِرک قرار نہیں دیتے، جبکہ اللہ تعالیٰ کی عطا
کردہ رُوحانی قوت کا اِنکار کرنے کیلئے بے بنیاد طریقے سے اُسے سلطۂ غیبیہ قرار دے کر شِرک ثابت کرنے
میں کوشاں نظر آتے ہیں۔ سائنسی ترقی کی بدولت حاصل ہونے والے نتائج کی صورت میں ناممکن اشیاء کا
ممکن ہوجانا اور اِنٹرنیٹ کی مدد سے دُنیا کے کسی بھی کونے میں رُونما ہونے والے واقعے سے اُسی لمحے
میں پوری دُنیا کا آگاہ ہو سکنا، اگر توحید کے منافی نہیں تو رُوحانی اَسباب کے اِمکان کا اِظہار بھی
شِرک کو ہرگز ہرگز دعوت نہیں دیتا۔ کفار و مُشرکین کی اِیجادات کی بدولت حاصل ہونے والا سلطہ اگر مُوجبِ
شِرک نہیں تو اﷲ ربّ العزّت کی عطا سے حاصل ہونے والے رُوحانی تصرّفات کی اَنبیائے کرام اور صلحائے عِظام
کی طرف نسبت کرنا کیونکر شِرک کہلا سکتا ہے؟ آج کی مادّی ترقی کے تصرّفات اپنی جگہ بجا مگر تاجدارِ
کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں کے تصرّفات اُن کی رُوحانی ترقی اور کمالات کی بدولت اِس منزل سے
بدرجہا آگے ہیں۔ اسی رُوحانی ترقی کی بدولت سرکارِ غوثِ اعظم سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں :
نَظَرْتُ إلٰی بِلَادِ اﷲِ جَمْعًا
کَخَرْدَلَةٍ عَلٰی حُکْمِ التَّصَالِیْ
ترجمہ : میں اﷲ کے تمام ملکوں کو ایک ساتھ اِس طرح دیکھتا ہوں جیسے میری ہتھیلی پر رائی کا ایک
معمولی دانہ (میری نظر میں ہوتا ہے)۔
ایک وہم کا اِزالہ
یہاں کچھ لوگ اِس وہم میں بھی پائے جاتے ہیں کہ جب دُور سے کسی کو کام کہا جائے تو اِس کا مطلب یہ
ہوا کہ پُکارے جانے والے کو دُور سے معلوم ہے کہ فلاں پکارنے والا ہے اور وہ پکارنے والے کو جانتا ہے۔
اِس بناء پر اس میں علمِ غیب بھی پایا گیا اور چونکہ علمِ غیب میں اِقتدار اعلیٰ بھی ہے تو اِن دو چیزوں
کی وجہ سے یہ شِرک اور ناجائز ہے۔ اِس خلطِ مبحث کا جواب بالکل سادہ ہے کہ جہاں ہم آج کی سائنسی ترقی
سے حاصل ہونے والے فوائد میں ایسا علم اِنسانیت کو عطا ہوتا دیکھ رہے ہیں وہاں کلامِ مجید فرقانِ حمید
میں بھی یہ دونوں پہلو غیراﷲ کے لئے ثابت ہیں، مگر اِس کے باوجود وہ شِرک سے آلودہ ہونے کی بجائے ربّ
کا کلام ہے، یعنی اس میں دُور سے جاننا اور کام کرنے پر قدرت دونوں کا ذکر پایا جاتا ہے۔ سورۂ نمل
میں سیدنا سلیمان علیہ السلام نے اپنے درباریوں کے ساتھ ہونے والے مکالمے میں اِرشاد فرمایا :
يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَيُّكُمْ يَأْتِينِي بِعَرْشِهَا قَبْلَ أَن يَأْتُونِي مُسْلِمِينَO
اے سردارو! تم میں سے کون ہے کہ اُس کا تخت میرے سامنے لے آئے قبل اِس کے کہ وہ فرمانبردار ہو کر
میرے سامنے حاضر ہوo
(النمل، 27 : 38)
ملکۂ بلقیس کا تخت سیدنا سلیمان علیہ السلام کے دربار سے 900میل کی مسافت پر پڑا تھا جسے درباریوں
میں سے کسی نے دیکھا تک نہ تھا۔ اِس کے باوجود کسی نے آپ علیہ السلام سے یہ نہیں پوچھا کہ اے سلیمان
علیک السلام! تخت تو سینکڑوں میل کی مسافت پر پردۂ غیب میں پڑا ہے اور آپ ہیں کہ اُس کی حاضریء
دربار کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کیا آپ ہماری نسبت یہ اِعتقاد رکھتے ہیں کہ ہم یہاں بیٹھے دُور کی شے
کے بارے میں علم رکھتے ہیں؟ اور ہمیں علمِ غیب حاصل ہے؟
کیا مخلوق کو دُور کا علم ہوسکتا ہے؟
اگر سلیمان علیہ السلام یہ عقیدہ رکھتے کہ 900میل کی مسافت پر پڑے ہوئے تخت کے بارے میں اُن کے
درباریوں میں سے کسی کو بھی یہ علم نہیں کہ وہ کہاں پڑا ہے، اور اُسے کس طرح اِتنی دُور پہنچ کر لایا
جا سکتا ہے؟ تو آپ اُن سے کبھی یہ نہ پوچھتے کہ کون لائے گا؟ بلکہ باری تعالیٰ سے عرض کرتے کہ اے اﷲ!
ملکۂ بلقیس کا تخت میرے پاس پہنچا دے کیونکہ تو ہی قادرِ مطلق ہے۔
مختصر یہ کہ ہمیں قرآنِ مجید سے یہ سبق ملتا ہے کہ دُور کی شے کے علم کا پایا جانا شِرک کے ضمن میں
نہیں آتا۔ پس اگر سلیمان علیہ السلام یہ خیال کرلیں اور اِس بنیاد پر درباریوں کو تخت حاضر کرنے کا
حکم فرما دیں اور اس کے باوجود مُشرک نہ ہوں اور اگر دورِ حاضر کے مسلمان یہ اِعتقاد رکھ لیں کہ داتا
گنج بخش علی ہجویری رضی اللہ عنھم، غوثِ اعظم شیخ سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنھم، حضرت سلطان
العارفین سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ، اور دیگر اولیائے کاملین اور صلحائے عِظام رضوان اﷲ علیہم اجمعین
ہمیں جانتے ہیں اور ہمارے بگڑے حالات سنوارنے پر منجانب اللہ قدرت رکھتے ہیں، تو یہ کیسے شِرک
ہوگا؟۔۔۔۔۔۔ جن وُجوہ کی بناء پرسیدنا سلیمان علیہ السلام کے معاملہ میں شِرک ثابت نہ ہو سکا، اسی
سبب سے یہاں بھی نہیں ہوگا، کیونکہ اَولیائے کرام کو بھی کشف اُسی ذاتِ حق نے عطا فرمایا ہے جس نے
سلیمان علیہ السلام کے درباریوں اور بالخصوص آصف برخیا کو عطا فرمایا تھا۔ قادرِ مطلق جب آج بھی وہی
ہستی ہے جو سیدنا سلیمان علیہ السلام کے عہدِ مبارک میں تھی تو آج بھی اَحکام اُسی طرح مرتب ہوں گے۔
دِین میں نئے نئے تصوّرات و اِعتقادات پیدا کرنے کی آخر کیا ضرورت ہے؟
کشفِ فاروقی
اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اُس کے محبوب و مکرّم بندوں کو عطا ہونے والی رُوحانی قوت و اِستعداد کی بدولت اُن
کے لئے نامعلوم اشیاء و مقامات پرپڑے پردے اُٹھ جاتے ہیں۔ یہ اﷲ ربّ العزّت کی خصوصی عطا پر مشتمل
رُوحانی فیوضات ہی کا کمال تھا کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبتِ جلیلہ میں تربیت
پانے والے صحابۂ کرام مادّی ذرائع اِختیار کئے بغیر ہزاروں میل کی مسافت پر موجود سپہ سالارِ لشکرِ
اِسلام کو براہِ راست ہدایات دینے پر قادِر تھے۔ سیدنا ساریہ بن جبل رضی اللہ عنھم کی زیرقیادت اِسلامی
لشکر دُشمنانِ اِسلام کے خلاف صف آراء تھا۔ دُشمن نے ایسا پینترا بدلا کہ اِسلامی اَفواج بُری طرح سے اُس کے
نِرغے میں آ گئیں۔ عین اُس وقت خلیفۃ المسلمین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنھم مدینہ منوّرہ میں بر سرِ
منبر خطبۂ جمعہ اِرشاد فرما رہے تھے۔ آپ رضی اللہ عنھم کی رُوحانی توجہ کی بدولت میدانِ جنگ کا نقشہ آپ
کی نظروں کے سامنے تھا۔ دورانِ خطبہ بآوازِ بلند پکارے :
يَا سَارِيَ الْجَبَل.
اے ساریہ! پہاڑ کی اوٹ لے۔
(مشکوٰة المصابيح : 546)
(دلائل النبوّه لأبی نعيم : 507)
(کنزالعمال، 12 : 35788)
یہ اِرشاد فرما کر آپ دوبارہ اُسی طرح خطبہ میں مشغول ہو گئے۔ ہزاروں میل کی دُوری پر واقع مسجدِ نبوی
میں خطبۂ جمعہ بھی دے رہے ہیں اور اپنے سپہ سالار کو میدانِ جنگ میں براہِ راست ہدایات بھی جاری فرما
رہے ہیں۔ نہ اُن کے پاس ریڈار سسٹم تھا، نہ موبائل فون۔۔۔ کہ جس کے ذرِیعے میدانِ جنگ کے حالات سے
فوری آگہی ممکن ہوتی۔ یہ فقط اﷲ ربّ العزّت کی عطا کردہ رُوحانی قوّت و اِستعداد تھی جس کی بدولت اندر
کی آنکھ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ حضرت ساریہ بن جبل رضی اللہ عنھم نے سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنھم کا
پیغام موصول کیا اور اُس پر عمل درآمد کرتے ہوئے پہاڑ کی اوٹ لے کر فتح پائی۔ دُشمن کا حملہ ناکام
رہا اور عساکرِ اِسلام کے جوابی حملے سے فتح نے اُن کے قدم چومے۔
کشف اور علمِ غیب میں فرق
یہاں ہم ایک مغالطے کا اِزالہ بھی کرتے چلیں کہ کشف اور علمِ غیب دو جدا چیزیں ہیں۔ علمِ غیب کے
برعکس کشف میں فقط کسی نامعلوم چیز سے پردہ اُٹھانے کا مفہوم پایا جاتا ہے اور یہ صرف مخلوق کے لئے
ہی ممکن ہے۔ اللہ ربّ العزّت کی ذات گرامی کے لئے کشف نام کی کوئی چیز نہیں کیونکہ وہ عالم الغیب و
الشھادۃ ہے۔ چونکہ اُس کے لئے کسی شے سے بھی پردہ ہے ہی نہیں لہٰذا کشف کی صورت میں پردہ اُٹھنے کا
سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کشف کی نسبت اَولیاء اﷲ کی طرف ہونے سے اﷲ کے نیک اور پارسا اَفراد کے لئے
وُہی شے ثابت ہو رہی ہے جو اللہ کے لئے ثابت کرنا بذاتِ خود شِرک ہے، لہٰذا ایسی شے جو اﷲ کے لئے ثابت
ہونا ناممکن ہو اُس کی نسبت غیراﷲ کی طرف کر دینے میں اِحتمالِ شِرک کیسا؟؟؟ اولیاء کے لئے غیب کی
اَشیاء سے پردہ ہوتا ہے اور اللہ اُن کے حجابات اُٹھا دیتا ہے۔ یہی تو عینِ توحید ہے۔ شِرک کا اِلزام تو
صرف اِس صورت میں درست قرار پا سکتا ہے جب اللہ ربّ العزت کی صفات اور شانِ اُلوہیت غیراﷲ کے لئے ثابت کی
جاتیں۔ زمین و آسمان اور سماوی کائنات کی تمام تر وُسعتوں میں ایسی کوئی چیز ہے ہی نہیں جو باری
تعالیٰ سے پوشیدہ ہو۔ ہر وہ شے جو اُس کے بندوں کے لئے غیب ہے، وہ اُسے بھی بخوبی جانتا ہے اور جو
عیاں ہے، وہ بھی اُس کے علم میں ہے۔ اِرشادِ ربّانی ہے :
إِنَّ اللّهَ لاَ يَخْفَى عَلَيْهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلاَ فِي السَّمَاءِO
یقیناً اللہ پر زمین اور آسمان کی کوئی بھی چیز مخفی نہیںo
(آل عمران، 3 : 5)
اِس آیتِ مبارکہ کی روشنی میں اللہ ربّ العزّت کے لئے کشف کا اِعتقاد رکھنا قطعی طور پر اللہ تعالیٰ کی قدرتِ
کاملہ اور علمِ غیب کو محدود و مقیّد کر کے رکھ دینے کے مُترادف ہے، جو یقیناً مدعائے توحید نہیں
ہوسکتا، کیونکہ کشف میں ایک نہاں حقیقت کو عیاں کرنے کا مفہوم پایا جاتا ہے اور اﷲ تعالیٰ سے کچھ
بھی نہاں نہیں۔ انبیاء و اولیاء کے لئے پردہ کا اِعتقاد تھا پس اللہ نے انہیں کشف عطا کر دیا اور
حجابات کے مرتفع ہونے سے وہ دُور و نزدیک کی اَشیاء کو جاننے لگ گئے۔ (علمِ غیب کے باب میں تفصیلی
مطالعہ کے لئے راقم کی کتاب ''قرآن و سنت اور عقیدۂ علمِ غیب'' ملاحظہ فرمائیں)۔
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سوال مسؤل کی قدرت پر دلیل ہے
قرآنِ مجید میں بیان کئے گئے واقعۂ مذکورہ میں سیدنا سلیمان علیہ السلام نے اپنے درباریوں سے یہ
خواہش ظاہر فرمائی تھی کہ ملکۂ بلقیس کا تخت لاؤ اور ساتھ میں شرط لگائی تھی کہ قَبْلَ أَن يَأْتُونِي
مُسْلِمِين (اِس سے قبل کہ وہ میرے مطیع ہوکر میرے حضور حاضر ہوں)۔ ملکہ سبا اور اُس کے ساتھ دِیگر بہت
سے لوگ حضرت سلیمان علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضری کے اِرادے سے چل پڑے ہیں اور مسلمان ہونے کے
لئے آ رہے ہیں اور آپ تقاضا کر رہے ہیں کہ اُن کے پہنچنے سے پہلے تخت یہاں موجود ہونا چاہیئے۔
اگر حضرت سلیمان علیہ السلام غیراﷲ کے لئے دُور کی شے کو جاننے اور لا سکنے کی طاقت اور قدرت کا
اِعتقاد نہ رکھتے تو وہ ہرگز ایسا سوال نہ کرتے، بلکہ درباری بھی بول پڑتے کہ اَے حضرت سلیمان علیک
السلام ! مخلوق کے لئے ایسا کام سراِنجام دینا کیسے ممکن ہے؟ آپ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کریں،
صرف وُہی اِس ما فوق الفطرت اَمر پر قدرت رکھتا ہے۔ مگر درباریوں میں سے کسی ایک کو بھی ایسے
گستاخانہ کلام کی جرات نہ ہوئی بلکہ جواب میں ایک جن اُٹھ کھڑا ہوا اور بولا :
أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن تَقُومَ مِن مَّقَامِكَ وَإِنِّي عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌO
میں اُسے آپ کے پاس لاسکتا ہوں قبل اِس کے کہ آپ اپنے مقام سے اُٹھیں اور بے شک میں اُس (کے لانے) پر
طاقتور (اور) اَمانتدار ہوںo
(النمل، 27 : 39)
یہاں یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ جو چیز جنوں کے لئے جائز ہو، وہ اللہ کے پیارے اور اُس کی بارگاہ میں
جھکنے والے برگزیدہ اِنسانوں کے لئے کیونکر شِرک ہوسکتی ہے؟ شِرک تواُن صفات و اَوصافِ الٰہیہ کی غیر اﷲ
کی طرف نسبت سے جنم لیتا ہے جو اللہ ربّ العزّت ہی کے ساتھ خاص ہوں اور اُس کے سوا کسی دُوسرے کو میسر نہ
آسکیں۔
سیدنا سلیمان علیہ السلام نے اُس جن کی پیشکش قبول نہ فرمائی۔ پھر اِنسانوں میں سے ایک ایسا بندہ
اُٹھا جس کے پاس کتاب کا علم تھا۔ وہ صاحبانِ علم و رُوحانییّن میں سے تھا۔ اُس نے کھڑے ہوکر حضرت
سلیمان علیہ السلام کے حضور یوں عرض کی :
أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِندَهُ قَالَ هَذَا مِن فَضْلِ رَبِّي.
میں اُسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اِس کے کہ آپ کی نگاہ آپ کی طرف پلٹے (یعنی پلک جھپکنے سے بھی
پہلے) پھر جب (سلیمان علیہ السلام نے) اُس (تخت) کو اپنے سامنے رکھا ہوا دیکھا تو کہا یہ میرے ربّ کا
فضل ہے۔
(النمل، 27 : 40)
مذکورہ بالا آیات میں ایک طرف ایسی مخلوق (جن) کا ذکر ہے جس کو اپنی طاقت اور قدرت پر ناز ہے، جس
کے بل بوتے پر وہ کوسوں میل دُور پڑے تخت کو مجلس برخاست ہونے سے پہلے لا کر حاضرِ خدمت کرنے کا عزم
ظاہر کرتا ہے اور دُوسری طرف ایک اللہ والے (اِنسان) کی شان بیان کی جارہی ہے کہ وہ اس کام کو آنکھ
جھپکنے سے پہلے اِنجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایسے میں سیدنا سلیمان علیہ السلام پکار اُٹھتے ہیں :
لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَن شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌO
تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر اَدا کرتا ہوں یا ناشکری اور جس نے (اللہ کا) شکر اَدا کیا سو وہ اپنی
ہی ذات کے فائدہ کیلئے شکر مندی کرتا ہے اور جس نے ناشکری کی تو بے شک میرا ربّ بے نیاز کرم فرمانے
والا ہےo
(النمل، 27 : 40)
سلطۂ غیبیہ کے وہم پر مبنی اِس اِعتراض کو بعض دفعہ یوں بھی پیش کیا جاتا ہے کہ بندے سے غیر مقدور
العبد شے کا طلب کرنا درست نہیں بلکہ اِستغاثہ کا عدم جواز ثابت کرنے کے لئے یہ خیال کیا جاتا ہے
کہ اَنبیاء، صلحاء اور اَولیاء سے غیر مقدورالعبد شے (ایسی چیز جو بندے کی قدرت میں نہ ہو بلکہ صرف
اللہ تعالی ہی کے قبضۂ قدرت میں ہو) کا طلب کرنا شِرک ہے۔ اِس کا جواب کسی حد تک تفصیل کے ساتھ گزر چکا
ہے۔ دراصل یہ خیال اُسلوبِ اِستغاثہ کو سمجھ نہ سکنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے، کیونکہ کوئی بھی مسلمان
اِستغاثہ کرتے وقت کبھی یہ عقیدہ اپنے دل میں نہیں رکھتا کہ مُستعان و مُستغاثِ مجازی (یعنی انبیاء و
اولیاء) ازخود ہماری مدد کریں گے، بلکہ ہمارے مقصودِ نظر یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ
میں ہماری حاجت رَوائی کا سبب اور وسیلہ بنیں، جیسا کہ نابینا صحابی رضی اللہ عنھم کے واقعہ میں اور
طلبِ بارش کے اِستغاثہ کے ذکر میں واضح ہو چکا ہے۔ مذکورہ صحابہ رضی اللہ عنھم نے اللہ تعالی کو مختارِ کل
اور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ ستودہ صفات کو وسیلہ مان کر اپنی حاجت براری کے لئے
اِلتجاء کی تھی اور اُس کے نتیجے میں موحّدِ اکبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو توحید کے رُموز سے ہم سب سے
بڑھ کر آگاہ ہیں، نے اُن صحابہ کو منع کرنے اور کلماتِ شِرک کی اَدائیگی سے روکنے کی بجائے اُن کے حق
میں دُعا کی جس کے صلہ میں اللہ تعالی نے اُن کا مسئلہ حل فرما دیا۔ اگر غیر مقدور العبد معاملات کا غیر
اللہ سے مدد طلب کرنا شِرک ہوتا تو :
اولاً : صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایسی گزارش ہی نہ کرتے۔
ثانیاً : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِنہیں شِرک سے آگاہ کرتے ہوئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اِس قسم کی
اِلتجاؤں سے منع فرما دیتے۔
ثالثاً : اللہ تعالی اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُن کی مدد سے منع فرماتا اور شِرک میں آلودہ
ہونے سے بچاتا۔
صحابہ کا اِستغاثہ، جواب میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل اور اللہ تعالی کا اِس عمل پر منع نہ
فرمانا۔۔۔ یہ تینوں چیزیں مل کر یہ ثابت کرتی ہیں کہ اِستغاثہ نہ صرف جائز بلکہ سنتِ صحابہ ہے اور
عنداللہ مقبول ہے۔ طلبِ معجزات بھی اِسی ضمن میں آ جاتا ہے۔ جب کفار و مشرکین نے تاجدارِ کائنات صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم سے خرقِ عادت اَفعال بطور معجزہ طلب کئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن اَفعال کو
شِرک قرار دینے کی بجائے اپنے دستِ اَقدس سے مطلوبہ معجزات (شقِ قمر وغیرہ) صادِر فرما دیئے۔ اگر یہ
غیرمقدورالعبد اَفعال شِرک ہوتے تو نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِن کا صدور کیونکر ممکن
تھا؟ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فعل شِرک نہیں (اور ایسا تصوّر بھی دائرۂ اِسلام سے خارج کر
دیتا ہے) تو اُمت کا۔۔۔ سنتِ صحابہ پر عملدرآمد کرتے ہوئے۔۔۔ اَیسے اَفعال کو طلب کرنا کیونکر شِرک ہو
سکتا ہے؟
مسلمان ہمیشہ اَنبیاء و اَولیاء سے اِستغاثہ کے دَوران یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ اللہ کے حضور سفارش اور
دُعا کر کے ہماری حاجت پوری کر دیں، یہی ہمارا عقیدہ ہے اور یہی جمیع اُمتِ مسلمہ کا۔ اگر کوئی
بالفرض یوں اِستغاثہ کرتا ہے کہ اَے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! مجھے شفا دیجئے اور میرا قرض
اَدا فرما دیجئے تو اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ شفائے مرض اور اَدائیگیءِ قرض کے سلسلہ میں اللہ تعالی کی
بارگاہ میں سفارش کر دیں۔ اور دُعا اور سفارش پر اﷲتعالیٰ نے اپنے محبوب بندوں کو قُدرت دے رکھی ہے۔
اِس قسم کے اَقوال کے بارے میں یہ نسبتِ فعل بطور مجازِ عقلی کے ہے اور اِس میں کوئی ممانعت نہیں۔ جیسا
کہ اللہ ربّ العزّت نے خود قرآنِ مجید میں اِرشاد فرمایا :
سُبْحَانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْضُ.
پاک ہے وہ ذات جس نے ہر اُس شے کو جوڑا جوڑا تخلیق کیا جو زمین اگاتی ہے۔
(يٰسين، 36 : 36)
قرآنِ مجید میں خود باری تعالی نے سبزے کی رُوئیدگی کی نسبت زمین کی طرف کی ہے، حالانکہ سبزہ اگانا
زمین کی قُدرت میں نہیں، وہ اِس عمل میں محض وسیلہ اور ذرِیعہ بنتی ہے۔ اِس آیتِ مبارکہ سے یہ ثابت
ہوتا ہے کہ وسیلہ اور ذرِیعہ بننے والی چیز کو فاعل کے طور پر ذِکر کر دینے میں کوئی مضائقہ نہیں
کیونکہ اِس مقام پر مجازِ عقلی کا قرینہ صحیح مفہوم کے اَخذ کرنے کے لئے موجود ہوتا ہے۔ قرآن و حدیث
اِس مفہوم میں جا بجا بھرے پڑے ہیں اور اِس میں کوئی ناجائز بات نہیں۔ مسلمانوں کے اِس مفہوم میں اَدا
کئے گئے جملے بالکل اُسی طرح شِرک سے خالی ہیں جیسے اللہ ربّ العزت کا کلامِ مجید اور آنحضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی اَحادیثِ مبارکہ۔
چوتھا اِعتراض
اللہ کے سِوا کوئی مددگار نہیں
قرآنِ مجید کی وہ آیاتِ مبارکہ جن میں غیراللہ سے وِلایت و نصرت کی نفی مذکور ہے، اُنہیں بنیاد بنا کر
اِستغاثہ بالغیر کی نفی کی جاتی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ وِلایت و نصرت کا حقدار صرف اور صرف اللہ ربّ
العزّت ہے اور اللہ کا حق کسی اور کے لئے ثابت کرنا شِرک ہے۔ جس طرح کہ قرآن مجید میں اِرشادِ ربّ
العالمین ہے :
1. وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللّهِ مِن وَلِيٍّ وَلاَ نَصِيرٍO
اور اللہ کے سوا نہ تمہارا کوئی دوست ہے اور نہ ہی مددگارo
(البقره، 2 : 107)
2. وَلَا يَجِدُونَ لَهُم مِّن دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًاO
وہ اللہ کے سوا کسی کو اپنا دوست اور مدد گار نہ پائیں گےo
(الاحزاب، 33 : 17)
3. وَ هُوَ الْوَلِیُّ الْحَمِيْدُo
اور وہ بڑا کارساز، بڑی تعریفوں کے لائق ہےo
(الشوريٰ 42 : 28)
4. مَا لَکَ مِنَ اﷲِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِيْرٍo
آپ کے لئے اللہ سے بچانے والا نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی مددگارo
(البقره، 2 : 120)
5. وَ کَفٰی بِاﷲِ وَلِيًّا وَّ کَفٰي بِاﷲِ نَصِيْراًo
اور اللہ (بطور) کارساز کافی ہے اور اللہ (بطور) مددگار کافی ہےo
(النساء، 4 : 45)
6. وَ مَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِنْدِ اﷲِ.
اور (حقیقت میں تو) اللہ کی بارگاہ سے مدد کے سوا کوئی (اور) مدد نہیں۔
(الانفال، 8 : 10)
7. وَ اجْعَلْ لِّی مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰناً نَّصِيْراًo
اور مجھے اپنی جانب سے مددگار غلبہ و قوت عطا فرما دےo
(بنی اسرائيل، 17 : 80)
8. وَ کَفٰی بِرَبِّکَ هَادِياً وَّ نَصِيْراًo
اور آپ کا ربّ ہدایت کرنے اور مدد فرمانے کے لئے کافی ہےo
(الفرقان، 25 : 31)
مندرجہ بالا تمام آیات کے معنی مرادی کو حقیقی معنی پر قیاس کرتے ہوئے یہ اِستدلال کیا جاتا ہے کہ اِن
آیات میں اﷲتعالیٰ کے لئے ولی، نصیر، سلطان اور ہادی کے اَلفاظ اِستعمال کئے گئے ہیں لہٰذا اِن صفاتِ
باری میں کسی اور کو شامل کرنا شِرک ہے۔
بُطلانِ اِستدلال
قرآنِ حکیم میں چند اَلفاظ کی نسبت اللہ تعالی کی طرف کئے جانے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اُن الفاظ کی
نسبت غیراللہ کی طرف کرنا شِرک قرار پا جائے گا۔ اِس ضمن میں درجنوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ چنانچہ
قرآن مجید میں جہاں اللہ ربّ العزت کے لئے ولی اور نصیر کے الفاظ آئے ہیں وہاں اس نے اپنے بندوں کے
لئے بھی مجازی طور پر یہی الفاظ اِستعمال کئے ہیں۔ ہم یہاں بے جا طوالت سے بچتے ہوئے صرف ولی اور
نصیر ہی کے الفاظ پر مشتمل آیات پیش کرتے ہیں، جبکہ اِن کے علاوہ دیگر بہت سی صفاتِ الٰہیہ (مثلاً سمیع
و بصیر اور شھید وغیرہ) بھی قرآنِ مجید میں اﷲ اور بندے دونوں کے لئے برابر اِستعمال ہوئی ہیں۔
اِرشادِ باری ہے :
1. وَ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِبًّا وَّ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِبْراًo
اور کسی کو اپنی بارگاہ سے ہمارا کارساز مقرر فرما دے اور کسی کو اپنی بارگاہ سے ہمارا مددگار بنا
دےo
(النساء، 4 : 75)
2. إِنَّمَا وَلِيُّکُمُ اﷲُ وَ رَسُوْلُه وَ الَّذِيْنَ آمَنُوْا.
بے شک تمہارا (مددگار) دوست تو اللہ اور اس کا رسول ہی ہے اور (ساتھ) ایمان والے ہیں۔
(المائده، 5 : 55)
3. وَإِن تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌO
اگر تم دونوں رسول کے مقابلے میں ایک دوسرے کی مدد کرتی رہیں (باہم وہ طریقہ اختیار کیا جو حضور
کو ناگوار ہو) تو (یاد رکھو کہ) اللہ ان کا رفیق (مددگارٌ) ہے اور جبرئیل اور نیک بخت ایمان والے اور
اس کے بعد فرشتے بھی ان کے معاون ہیںo
(التحريم، 66 : 4)
4. وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أوْلِيَآءُ بَعْضٍo
اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مدد گار ہیںo
(التوبه، 9 : 71)
ان آیاتِ بینات سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ ولی، نصیر اور اِسی قبیل کے دُوسرے الفاظ
جو قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کی صفات کے طور پر مذکور ہیں، اللہ کے بندوں کے لئے اِن الفاظ و صفات کا
اِستعما ل نہ صرف یہ کہ مجازاًجائز ہے بلکہ اللہ ربّ العزّت کی سنت ہے، اور اللہ تعالیٰ کی سنتِ جلیلہ کو شِرک
کا نام دے دینا تعلیماتِ اِسلامیہ سے رُوگردانی کے مُترادف ہے۔ اَحکامِ اِسلام ہرگز اِس چیز کا درس نہیں
دیتے۔
پانچواں اِعتراض
سوال اور اِستغاثہ صرف اﷲ سے جائز ہے
نفی اِستغاثہ میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھم سے مروی حدیثِ مبارکہ سے ایک غلط اِستدلال بھی پیش
کیا جاتا ہے، جس میں فقط اللہ تعالیٰ سے سوال کرنے اور اُسی سے مدد طلب کرنے کا حکم ہے۔ حدیثِ مبارکہ کے
اَلفاظ یوں ہیں :
إذا سألتَ فاسْال اﷲ و إذا اسْتعنتَ فاستعِن باﷲ و اعلم أنَّ الأُمَّةَ لَوِ اجْتمعتْ علٰی أنْ يَّنْفعکَ بِشئ لم ينفعک
إلا بشئ قد کتبه اﷲ لک، و لوِ اجتمعوا علی أن يضرّوک بشئ لم يضروک إلّا بشئ قد کتبه اﷲ عليک رُفعتِ الأقلامُ
و جُفّتِ الصُّحُفُ.
جب تو سوال کرے تو اللہ ہی سے سوال کر اور جب مدد طلب کرے تو اللہ ہی سے کر اور آگاہ رہ کہ اگر ساری اُمت
مل کر تجھے نفع دینا چاہے تو بھی تقدیر اِلٰہی کے خلاف ایسا نہیں کر سکتی (اِسی طرح) ساری اُمت مل کر
تجھے نقصان پہنچانا چاہے تو بھی تقدیر اِلٰہی کے خلاف کامیاب نہیں ہو سکتی (کیونکہ کاتبِ تقدیر کے)
قلم اُٹھا لئے گئے ہیں اور تحریریں خشک ہو چکی ہیں۔
(جامع الترمذی، اَبواب الزهد، 2 : 74)
ذیل میں ہم اِس بات کی وضاحت کریں گے کہ اِس حدیثِ مبارکہ سے یہ اِستنباط کرنا کہ سوال اور اِستغاثہ
فقط اللہ ربّ العزّت ہی سے جائز ہے اور غیراللہ سے کیا جانے والا سوال و اِستغاثہ شِرک میں مبتلا کر دینے کا
باعِث ہے، سراسر غلط ہے۔
سوال حکمِ باری تعالیٰ ہے
اِس اِستدلالِ باطل سے اَسباب کو اِختیار کرنے کی مکمل نفی ہو گئی اور سوال، اِستعانت و اِستغاثہ اور
اِستمداد میں وارِد کتاب و سنت کی بہت سی نصوص یک قلم معطل ہو کر رہ گئیں۔ ایسا اِستدلال قرآن و حدیث
سے عدم واقفیت، منشائے نزولِ قرآن سے عدم آگہی اور تعلیماتِ اِسلام کے سطحی مطالعہ کی وجہ سے ہی ممکن
ہے، جس سے جمیع اُمتِ مسلمہ پر کفر و شِرک کا بہتان لگانا مقصود ہے۔ حقیقتِ حال یہ ہے کہ اِس حدیثِ
مبارکہ سے مقصود سوال و اِستغاثہ اور اِستعانت و اِستمدادِ ماسویٰ اللہ سے روکنا نہیں ہے، جیسا کہ بادیء
النظر میں معلوم ہو رہا ہے، بلکہ اِس حدیث کا منشاء بندے کی توجہ اَسباب سے ہٹا کر مسبّب کی طرف
مبذول کرنا ہے تاکہ بندہ اَسبابِ اِستغاثہ (مستغاثِ مجازی) کے تصوّر میں اُلجھ کر مستعان و مستغاثِ حقیقی
کو بھلا نہ بیٹھے۔ سو اِس حدیثِ مبارکہ کا مفہوم دیگر تعلیماتِ اِسلام کی روشنی میں یوں ہو گا کہ ''اے
بندے! جب تو مخلوقاتِ خداوندی میں سے کسی سے سوال اور اِستعانت و اِستغاثہ کرے تو اللہ ربّ العزت کی ذات
اور قُدرتِ کاملہ پر کامل بھروسہ اور اِعتماد رکھ اور اُسی کو مستغاثِ حقیقی جان کر سوال کر، کہیں یہ
مجازی اَسباب تجھے مسبّب الاسباب سے غافل نہ کر دیں اور تیرے لئے حجاب نہ بن جائیں''۔ نبی کریم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے اِس حدیثِ مبارکہ میں اِسلامی تصورِ اِستعانت و اِستغاثہ کی تحدید نہیں فرمائی بلکہ
فرمایا کہ تقدیر اِلٰہی کے خلاف کوئی اِستغاثہ ممکن نہیں۔ اِس میں اللہ کی بارگاہ میں وسیلہ بن کر کسی کی
حاجت روائی کرنے کا اِنکار کہاں ہے؟ اللہ کی مشیت کے خلاف کرنے اور اُس کی موافقت کرنے میں زمین و آسمان
کا فرق ہے، آخر اِنہیں ایک دوسرے پر کس طرح قیاس کیا جا سکتا ہے؟ حدیثِ مبارکہ کے آخری اَلفاظرُفعتِ
الأقلامُ و جُفّتِ الصُّحُفُ ''قلم اُٹھا لئے گئے اور تحریریں خشک ہو گئیں'' اِس بات کو واضح کر رہے ہیں کہ
اِستغاثہ بالغیر کی ممانعت فقط تقدیر اِلٰہی کے خلاف ہے۔ اِس حدیثِ مبارکہ کا وُرود تقدیر اِلٰہی کی حجت کے
اِتمام کے لئے ہوا ہے نہ کہ سوال و اِستغاثہ سے منع کرنے کے لئے، کیونکہ ما سویٰ اﷲ سے سوال کا حکم
تو خود اللہ ربّ العزّت نے جا بجا فرمایا ہے۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو :
فَاسْئَلُوْا أهْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَo
سو تم اہلِ ذِکر سے سوال کر لیا کرو اگر تمہیں خود (کچھ) معلوم نہ ہوo
(النحل، 16 : 43)
مذکورہ آیتِ کریمہ میں مومنین کو اہلِ ذِکر سے سوال کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ اِس آیت کریمہ کے علاوہ
اِسی مفہوم میں وارِد ہونے والی بے شمار اَحادیثِ نبویہ سے بھی یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ''وَ اِذَا سَألْتَ
فَاسْئَلِ اﷲَ'' کا مطلب و مفہوم سوال مِن الغیر سے مطلق ممانعت نہیں بلکہ اِس سے مُراد یہ ہے کہ بلاضرورت
اُمراء سے طمع کر کے اُن سے طلبِ دولت اور صاحبانِ اِقتدار سے طلبِ جاہ و منصب نہ کی جائے اور اللہ تعالی
سے ہی اُس کے فضل و کرم کا سوال کیا جائے۔ اِس حدیثِ مبارکہ سے سوال مِن الغیر کی ممانعت اَخذ کرنا
قطعاً درست نہیں۔ ''وَ اِذَا سَألْتَ فَاسْئَلِ اﷲَ'' میں سوال مِن الغیر یا اِستغاثہ و توسل کے عدمِ جواز پر
کوئی دلیل نہیں ہے۔ جبکہ دیگر بے شمار اَحادیثِ مبارکہ میں مذکور ہے کہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے بارہا صحابہ کو خود سوال پر اُبھارا اور پھر اُن کے سوال کا جواب اِرشاد فرمایا۔ (جس کی
تفصیل مع اَمثلہ گزشتہ صفحات میں گزر چکی ہے) اگر سوال مِن الغیر کو شِرک قرار دے دیا جائے تو طالبِ
علم کا اُستاد سے سوال کرنا، بیمار کا ڈاکٹر سے علاج طلب کرنا، حاجت مند کا صاحبِِ اِستطاعت سے سوال
کرنا اور کسی قرض خواہ کا قرض دی گئی رقم واپس طلب کرنا سب شِرک اور ممانعت کے زُمرے میں آ جائیں
گے۔
اور بھی کچھ مانگ
سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک خوش بخت صحابی سیدنا رَبیعہ بن کعب رضی اللہ عنھم ایک رات آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اَقدس میں موجود تھے۔ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وُضو
کیلئے پانی بھرا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وُضو کروایا۔ اِس خدمت کے صلے میں مالکِ کون و مکاں
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوش ہو کر حضرت ربیعہ رضی اللہ عنھم سے فرمایا : ''سَلْ''۔۔۔ یعنی مانگ، جو
مانگنا چاہتا ہے۔ اِتنی بڑی پیشکش دیکھ کر صحابیءِ رسول نے صاحبِ لولاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اُن کی
دائمی قربت کی نعمت مانگ لی، جسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبول فرما لیا۔ حضرت ربیعہ رضی اللہ
عنھم خود بیان فرماتے ہیں :
کنت أبيت مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فأتيه بوضوئه و حاجته، فقال لي : ''سل'' فقلت :
''أسألک مرافقتک في الجنة'' قال : ''أو غيرک'' قلت : ''هو ذاک'' قال : ''فأعنّي علي نفسک بکثرة
السجود''.
میں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک شب گزاری (اور آخرِ شب) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے وُضو اور رفع حاجت کیلئے پانی لایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ''مانگ (جو چاہتا
ہے)'' میں نے عرض کی : ''میں جنت میں آپ کی (دائمی) قُربت چاہتا ہوں''۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا : ''اِس کے علاوہ''؟ میں نے عرض کی : ''یہی کافی ہے''۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
''پھر کثرتِ سجود کے ساتھ میری مدد کرو''۔
(الصحيح لمسلم، کتاب الصلوٰة، 1 : 193)
(سنن اَبو داؤد، کتاب الصلوٰة، 1 : 194)
اِس حدیثِ مبارکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنے صحابی رضی اللہ عنھم کو سوال کرنے کا حکم
فرمایا۔ اگر غیر اللہ سے سوال ممنوع ہوتا تو مؤحّدِ اکبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہرگز ایسا نہ فرماتے۔
حدیث کے آخری اَلفاظ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنے صحابی سے کثرتِ سجود کے ذریعے مدد
مانگی جس سے ثابت ہوا کہ غیراللہ سے سوال اور طلبِ عون سنتِ مصطفیٰ ہونے کی بناء پر رَوا ہے اور اس کے
خلاف فتویٰ زنی ہرگز کسی مؤحّد کا شیوہ نہیں ہوسکتا۔ اِس طرح کے مذہبی تصوّرات اِسلام کی عالمگیر تعلیمات
سے عدم واقفیت کی بناء پر پیدا ہوتے ہیں۔
اِستغاثہ خود حکمِ باری تعالی ہے
اللہ تعالی کی بارگاہ میں حاجت رَوائی اور مدد طلبی کے لئے اللہ کی محبوب مخلوق اور اُس کے محبوب اَعمال و
اَفعال کا اِستغاثہ کرنا حکمِ خداوندی میں شامل ہے۔ اَب ہم اِس کی چند مثالیں قرآن و حدیث سے پیش کرتے
ہیں۔
1۔ کلامِ مجید میں ہے :
وَ اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوة.
اور صبر اور نماز کے ذریعے (اللہ سے) مدد چاہو۔
(البقره، 2 : 45)
یہاں صبر اور صلوٰۃ جیسے اَعمالِ صالحہ سے اِستعانت کا حکم باقاعدہ اَمرِ خداوندی ہے جس میں مؤمنین کو
یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ صبر اور صلوٰۃ جیسے اَعمالِ صالحہ کو وسیلہ اور مستعانِ مجازی بنا کر اللہ ربّ
العزّت جو مُستعان و مُستغاثِ حقیقی ہے، کی بارگاہ سے مدد طلب کرو۔
2۔ اِسی طرح ایک اور آیتِ کریمہ ملاحظہ ہو جس میں جہاد کے لئے سامانِ حرب کا اِستغاثہ کرنے اور جہاد کی
تیاری کا حکم ہے۔ اِرشاد ربانی ہے :
وَ أعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَيْلِ.
اور (اے مسلمانو!) اُن کے (مقابلے) کے لئے تم سے جس قدر ہو سکے (ہتھیاروں اور آلات جنگ کی) قوت مہیا
رکھو اور بندھے ہوئے گھوڑوں کی (کھیپ بھی)۔
(الانفال، 8 : 60)
3۔ علاوہ ازیں قرانِ مجید میں اللہ ربّ العزّت کے محبوب ومکرم بندے حضرت ذوالقرنین علیہ السلام کے بارے
میں بھی قرآن گواہ ہے کہ اُنہوں نے دُشمن کے مقابلے میں اپنی قوم سے مدد طلب کی۔ اِرشاد قرآنی ہے :
فَأعِيْنُوْنِیْ بِقُوَّةٍ.
تم اپنے زورِ بازو (یعنی محنت و مشقت) سے میری مدد کرو۔
(الکهف، 18 : 95)
4۔ صلوۃ الخوف۔۔۔ جو قرآن و سنت کی نصوصِ قطعیہ سے ثابت ہے۔۔۔ بھی اِستغاثہ مجازی کی بہترین مثال
ہے، کیونکہ اُس کی مشروعیت میں بعض مخلوق کی غیراﷲ سے اِستعانت کی مشروعیت ہے۔
5۔ حدیثِ مبارکہ میں سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بارہا مؤمنین کو ایک دوسرے کی مدد و
اِستعانت کا حکم اور ترغیب دی ہے۔ اِرشاد فرمایا :
مَنْ کَانَ فِیْ حَاجَةِ أخِيْهِ کَانَ اﷲُ فِیْ حَاجَتِهِ.
جو اپنے بھائی کی تکمیلِ حاجت میں مصروف ہو، اللہ اُس کی حاجت رَوائی خود فرماتا ہے۔
(صحيح البخاری، کتاب المظالم، 1 : 330)
(الصحيح لمسلم، کتاب البر و الصله، 2 : 320)
6۔ ایک اور حدیثِ مبارکہ میں یہی مضمون کچھ اِس طرح سے آیا ہے :
وَ اﷲُ فِی عَونِ العَبدِ مَا کانَ العبدُ فِی عَونِ أخيهِ.
اللہ بندے کی مدد میں مصروف ہوتا ہے جب تک بندہ اپنے کسی بھائی کی مدد میں مصروف ہو۔
(الصحيح لمسلم، کتاب الذکر، 2 : 345)
(جامع الترمذی، اَبواب القرأت، 2 : 118)
7۔ اِمام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مُستدرک میں ایک حدیثِ مبارکہ ذِکر کی ہے جس میں حضور سرورِ کائنات
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابۂ کرام کو ایک دُوسرے کی مدد اور قضائے حاجات کے لئے حکم دیتے ہوئے اِس
مبارک عمل کی اہمیّت یوں واضح فرمائی :
لأنْ يمشي أحدُکم مع أخيهِ فی قضاءِ حاجةٍ أفضل مِن أن يعتکفَ فی مسجدِي هٰذا شَهرين.
تم میں سے کسی کا اپنے بھائی کے ساتھ اُس کی مدد کے لئے جانا میری اِس مسجد میں دو ماہ اِعتکاف کرنے
سے بہتر ہے۔
(المستدرک، 4 : 270)
(الترغیب والترهيب، 3 : 391)
8۔ اللہ تعالی نے لوگوں کے مصائب و مشکلات کے اِزالے اور حاجات کے پورا کرنے کے لئے بطورِ خاص ایک ایسی
مخلوق پیدا کر رکھی ہے جو دُکھی اِنسانیت کی خدمت اور اُن کی مدد و نصرت کے لئے ہمہ دم تیار رہتی ہے۔
حدیثِ مبارکہ میں ہے :
إنّّ ﷲِ خلقاً خلقهم لِحوائجِ الناسِ تفزع الناسُ إليهم فی حوائجِهم أولئکَ الأمِنونَ من عذابِ اﷲِ.
اللہ تعالی نے لوگوں کی حاجات و ضروریات کی تکمیل کے لئے ایک مخلوق پیدا کر رکھی ہے تاکہ لوگ اپنی
ضروریات (کی تکمیل) کے لئے اُن سے رجوع کریں۔ یہ لوگ عذابِ اِلٰہی سے محفوظ و مامون ہیں۔
(مجمع الزوائد، 8 : 192)
(الترغيب و الترهيب، 3 : 390)
اِس حدیثِ مبارکہ میں سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہ اَلفاظ کہ ''لوگ اُن سے اپنی ضروریات کی
تکمیل کے لئے رُجوع کریں''۔۔۔ خاص طور پر قابلِ غور ہیں۔ لوگوں کا اِستعانت و اِستغاثہ کی نیت سے اُس
مخلوقِ خدا کی طرف جانا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مستحسن بیان فرمایا ہے، چہ جائیکہ دین کے
کامل فہم سے ناآشنائی کے باعث اِسے حرام بلکہ شِرک قرار دیا جائے۔
9۔ اِسی مفہوم میں وارِد ایک اور حدیثِ مبارکہ کے اَلفاظ کچھ یوں ہیں :
إنّ ﷲِ عندَ أقوام نعمّا يقرّها عندهم ما کانوا فی حوائجِ الناس ما لم يملّوا، فإذا ملّوا نقلها إلی
غيرهم.
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے پاس اپنی نعمتیں رکھی ہیں، وہ بندے اِنسانوں کی ضروریات پورا کرنے میں
لگے رہتے ہیں، جب تک کہ وہ اکتا نہ جائیں۔ جب وہ اکتا جاتے ہیں تو (یہی ڈیوٹی) دُوسروں کے سپرد کر
دی جاتی ہے۔
(المعجم الاوسط، 9 : 161)
(الترغيب والترهيب، 3 : 390)
مذکورہ بالا آیات و احادیث سے یہ ثابت ہوا کہ مخلوق سے مدد مانگنا اور اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد
طلبی اور اِستغاثہ پر اُن کی مدد کو پہنچنا منشائے ربانی اور منشائے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ہے۔ جس عمل کا حکم خود اﷲ ربّ العزّت اور اُس کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دِیا ہو اور جمیع
اُمتِ مسلمہ نے ہر دَور میں اُس حکم کی تعمیل میں لبیک کہا ہو وہ ہرگز شِرک و بِدعت نہیں ہو سکتا۔ قابلِ
توجہ پہلو یہ ہے کہ مذکورہ آیات و احادیث اِستغاثہ کے لئے صرف جواز اور حلت کا نہیں بلکہ اَمرِ ربانی
کا درجہ رکھتی ہیں۔
چھٹا اِعتراض
سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِستغاثہ کی نفی
سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں ایک منافق مسلمانوں کی اِیذا رسانی
کرتا اور اُن کے لئے طرح طرح کی تکالیف کھڑی کرنے میں کوشاں رہتا۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنھم نے
صحابہ سے فرمایا کہ آؤ ہم مل کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں اِس منافق کے خلاف اِستغاثہ
کریں۔ جب یہ بات سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آپ نے فرمایا :
إنّه لا يُستغاثُ بی و إنّما يُستغاثُ باﷲِ.
مجھ سے اِستغاثہ نہیں کیا جاتا اور صرف اللہ سے ہی اِستغاثہ کیا جاتا ہے۔
(مجمع الزوائد، 10 : 159)
اِس حدیثِ مبارکہ کا مفہوم سمجھنے اور اِس کی شانِ وُرود تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے بعض لوگوں کا خیال
ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ماسواء اللہ سے اِستغاثہ کو قطعی طور پر ممنوع قرار دے دیا
ہے، پس اَب اگر کوئی غیراللہ سے مدد مانگے گا تو مُشرک قرار پائے گا۔
حدیثِ مبارکہ کا صحیح مفہوم
اِس ایک حدیثِ مبارکہ کو اِس کے حقیقی مفہوم میں رکھ کر بے شمار آیات و اَحادیث اور عملِ صحابہ کے خلاف
کیا گیا ہے۔ وہ آیات و اَحادیث جن میں صریح اَلفاظ میں اِستغاثہ مِن دُون اللہ کا حکم پایا جاتا ہے (جن
میں سے چند ایک کا تفصیلی ذکر ہم اُوپر کر آئے ہیں) اِس حدیث کے حقیقی مفہوم پر عمل کرنے کی صورت
میں اِن تمام آیات و اَحادیث کو سِرے سے بالائے طاق رکھنا پڑ رہا ہے۔ شریعتِ اِسلامیہ کا مسلّمہ اُصول ہے
کہ جب کوئی حدیث قرآن مجید یا دیگر اَحادیثِ متواترہ کے خلاف اَحکام ظاہر کرے تو اُن کے مابین تطبیق
پیدا کرنے کی کوشش جاتی ہے اور اگر حقیقی معنی کے ساتھ تطبیق ممکن نہ ہو تو تاویلاً اُس مختلف فیہ
حدیث کو مجازی معنی پر محمول کر کے صریح آیات و اَحادیثِ مبارکہ کے ساتھ اُس کا تعارُض ختم کیا جاتا
ہے۔ یہی صورت کچھ یہاں بھی ہو گی۔
یہاں اِس حدیث سے مُراد اصل اِعتقاد میں توحید کی حقیقت کو ثابت کرنا ہے اور وہ یہ کہ مُغیث و مُستعانِ
حقیقی فقط اللہ ربّ العزّت کی ذات ہے اور بندۂ بشر اِستغاثہ کے معاملہ میں صرف ایک وسیلہ اور واسطہ ہے۔
یہ حدیثِ مبارکہ صرف زِندہ کے ساتھ اِستعانت و اِستغاثہ کے خاص ہونے پر بھی دلالت نہیں کرتی جیسا کہ
کچھ لوگوں کا خیال ہے، بلکہ اِس حدیث کا ظاہر تو زِندہ و مُردہ کی تفریق سے ماوراء غیراللہ سے ہمیشہ
اِستغاثہ کو منع کرتا ہے، جس کی تاوِیل اور ضرورتِ تاوِیل ہم اُوپر ذکر کر آئے ہیں۔ اِمام اِبنِ تیمیہ نے
بھی اپنے فتاویٰ میں یہی بات ذکر کی ہے اور واضح کیا ہے کہ بعض اَوقات اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے کلام سے کچھ لوگ غیرمُرادی معانی اَخذ کرنے لگ جاتے ہیں جبکہ دُوسرے مقامات اُن کے اِس اخذِ
مسئلہ کا رَدّ کر رہے ہوتے ہیں۔ منافق کی اِیذاء رَسانی اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنھم کا اُس کے
خلاف حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں اِستغاثہ بھی اِسی قبِیل سے ہے۔ اگر اِس حدیثِ
مبارکہ کی یہ تاوِیل و تشریح نہ کر دی جائے تو اِس حدیث کا دیگر آیات و اَحادیث اور عملِ صحابہ سے
براہِ راست تعارض لازم آئے گا۔ کتبِ حدیث میں جا بجا درج ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم سے دُعا کراتے، آپ کے وسیلۂ جلیلہ سے اِستسقاء کرتے اور وہ اِستغاثہ بالنبی صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم میں تمام اُمت سے بڑھ کر تھے۔ صحیح بخاری میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھم کا قول مذکور
ہے کہ بسا اَوقات میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رُخِ انور کی زیارت کے دَوران حضرت ابوطالب کا یہ
شعر یاد کرتا جس میں مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بارِش طلب کر رہے ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے مِنبر سے نیچے اُترنے سے پہلے بارِش کا پانی پرنالوں سے بہہ نکلتا، وہ شعر یہ ہے :
وَ أبيض يُستسقی الغمامُ بوجهه
ثمال اليتامٰی عِصمة للأراملِ
ترجمہ : اور وہ حسیں جس کے رُخِ تاباں کے طفیل بارِش طلب کی جاتی ہے، جو یتیموں کا والی اور بیواؤں
کا سہارا ہے۔
(صحيح البخاری، کتاب الاستسقاء، 1 : 137)
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھم کا اِس محبت بھرے شعر کو گنگنانا ظاہر کرتا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ
عنھم کس قدر وارفتگی کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تعلقِ عشق و محبت رکھتے تھے اور جب
کبھی اُن پر کوئی مُشکل و مصیبت آن پڑتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف اِستغاثہ و اِستعانت اور
اِستمداد کے لئے کھنچے کھنچے چلے آتے تھے۔ جب عملِ صحابہ سے اِس حدیثِ مختلف فیہ کی وضاحت میسر آ رہی
ہے اور وہ قرآن و سنت کی تعلیمات کے عین موافق بھی ہے تو پھر اِن نادان دوستوں کی تشریحات اور فتویٰ
ہائے کفر و شِرک کو کس طرح غایتِ توحید سمجھا جا سکتا ہے! توحید کا قرآنی تصور ہرگز اِس بات کی اِجازت
نہیں دیتا کہ فقط ایک مختلف فیہ حدیث پر عمل کرتے ہوئے اور باقی تمام تعلیماتِ اِسلام سے اِغماض برتتے
ہوئے جمیع اُمت مسلمہ پر کفر و شِرک کا بہتان باندھا جائے۔
اِیمان اور کفر کے مابین حدِ فاصل اِیمان اور کفر کے درمیان نسبتِ مجازی کا لحاظ
سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اولیاء و صلحاء کی تعظیم و تکریم اور اُن سے اِستغاثہ کے
دوران عامۃ المسلمین کبھی کبھار بعض ایسے اَلفاظ کا اِستعمال کر جاتے ہیں کہ اگر اُن اَلفاظ کو اُن کے
حقیقی معنی موضوع لہ کے مطابق سمجھا جائے تو بات کفر و شِرک تک جاپہنچتی ہے۔ لیکن چونکہ اُن کے دِلوں
میں اپنے ادا کردہ الفاظ کے حقیقی مفہوم کی بجائے مجازی معنی مُراد ہوتا ہے اور مجازِ متعارف پائے
جانے کے سبب ایسے موقع پر معاشرے میں عام طور پر مجازی معنی ہی مُراد لیا جاتا ہے لہٰذا ایسے افراد
شِرک کی آلائش میں نہیں گردانے جائیں گے۔ مثلاً :
يَا أکرمَ الخلقِ مَا لِی مَن ألُوذُ به
سِواک عندَ حُلول الحادثِ العمم
ترجمہ : اَے تمام مخلوق سے بزرگ و برتر (نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )! آپ کے علاوہ میرا کوئی
(مددگار) نہیں جس کی میں آفات کی کثرت کے وقت پناہ طلب کروں۔
لِي خمسةٌ نُاطْفی بِها حرَّ الوباءِ الحاطمةِ
اَلمصطفیٰ وَ الْمُرتضٰی وَ ابْنَاهُمَا وَ الْفَاطِمة
ترجمہ : میرے لئے پانچ (اَحباب ایسے) ہیں کہ جن کی مدد سے میں تباہ کن وباء کی حدّت کو بُجھاتا ہوں
(اَور وہ یہ ہیں : ) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، علی مرتضیٰ رضی اللہ عنھم، اِن کے دونوں صاحبزادے (حسن
رضی اللہ عنھم و حسین رضی اللہ عنھم ) اور سیدہ فاطمۃ الزھرا رضی اللہ عنھمء۔
یہ سب تمہارا کرم ہے آقا
کہ بات اَب تک بنی ہوئی ہے
مجھے نظرِ کرم کی بھیک ملے
مِرا کوئی نہیں ہے تیرے سِوا
سب کا کوئی نہ کوئی دُنیا میں آسرا ہے
میرا بجز تمہارے کوئی نہیں سہارا
خدا دے پکڑے چُھڑاوے مُحمد
مُحمد دے پکڑے چُھڑا کوئی نئِیں سکدا
دنیا دے اندر ہوراں دے ہووَن گے ہور سہارے وِی
میرا تے آقا باج تِرے کوئی وِی سہارا ہور نئِیں
اِسی طرح بعض اَوقات اُمتِ مسلمہ کے کچھ اَفراد سرورِ دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پکارتے ہوئے لَيسَ
لنَا مَلجأٌ سِواکَ يَا رسولَ اﷲِ ''اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ کے سِوا ہمارا کوئی ٹھکانہ
نہیں'' وغیرہ جیسے اَلفاظ بھی کہہ دیتے ہیں۔ بادیء النظر میں اگر ایسے اَشعار و اَلفاظ کا اِطلاق حقیقی
معنی پر کیا جائے تو ایسے قول کا قائل کافر و مُشرک قرار پاتا دکھائی دیتا ہے، مگر دَرحقیقت کسی بھی
مسلمان کے ذِہن میں اِن الفاظ کے اِستعمال کے وقت حقیقی معنی مُراد نہیں ہوتا۔ ہر وہ شخص جو یہ اَلفاظ
پکارتا ہے وہ یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اللہ کے سِوا فقط آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی بارگاہ میرے لئے
جائے پناہ ہے اور خدا کے دَر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کا سہارا مجھ عاصی و خطاکار کی
بخشش کا ذرِیعہ و وسیلہ ہے۔ اِن اَلفاظ سے مُراد یہ ہوتی ہے کہ مخلوقِ خدا میں آپ کے سِوا میرا کوئی
نہیں ہے اور آپ کے علاوہ دیگر اِنسانوں سے مجھے قطعاً کوئی اُمید نہیں ہے۔ اگرچہ ہم عام طور پر توسّل
و اِستغاثہ کے دوران اِس طرح کے ذُومعنی اَلفاظ کا اِستعمال کرتے ہیں اور نہ دُوسروں کو ایسے اَلفاظ کے
اِستعمال کی تلقین کرتے ہیں، تاکہ شِرک کا وہم و گمان بھی جنم نہ لے اور ایسے اَلفاظ سے اِجتناب بھی
ہو جائے، لیکن اِس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اِس قسم کے اَلفاظ کا مجازی اِستعمال
کرنے والے پر کفر و شِرک کا فتویٰ جڑ دینے میں جلدبازی سے کام لینا بھی دانشمندی کی بات نہیں۔
ضرورت اِس امر کی ہے کہ اِن مسلمانوں کے مؤحّد ہونے کے بارے میں حُسنِ ظن رکھا جائے اور معنیء مجازی کو
مدّنظر رکھتے ہوئے فتویٰ ہائے کفر و شِرک سے کلیتاً اِجتناب کیا جائے۔ کیونکہ یہ مؤحّدین اللہ تعالی کی
توحید کے اُسی طرح قائل ہیں جیسے اِسلامی اَحکام کا تقاضا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
رِسالت کی بھی گواہی دیتے ہیں۔ نماز پڑھتے اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ جب وہ اِسلام کے جمیع اَحکام پر عمل
پیرا ہیں تو چند اَلفاظ کے مجازی اِستعمال کے جُرم کی پاداش میں اُنہیں حلقۂ اِسلام سے نکال باہر
پھینکنا کہاں کی ہوشمندی ہے؟ سیدنا اَنس بن مالک رضی اللہ عنھم سے مروِی ہے کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا :
مَنْ صلّي صلوٰتنا وَ اسْتقبلَ قبلتَنا و أکل ذبيحتَنا فذٰلک المُسلم الذي له ذمة اﷲِ و ذمة رسولِه فلا تخفروا
اﷲ فی ذمتِه.
جو ہماری طرح نماز پڑھے اور ہمارے قبلے کو قبلہ بنائے اور ہمارا ذبیحہ کھائے پس وہ ایسا مسلمان ہے
جس کے لئے اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذِمہ ثابت ہے، پس تم اللہ کی ذمہ داری کو مت
توڑو۔
(صحيح البخاري، کتاب الصلوٰة، 1 : 56)
صحیح بخاری کی اِس حدیثِ مبارکہ کے بعد عامۃ المسلمین کو مجازِ عقلی کے جائز اِستعمال پر مُشرک قرار
دینے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ مجازِعقلی کا اِستعمال قرآن و حدیث اور عملِ صحابہ کرام رضی اللہ
عنھم میں جا بجا موجود ہے اَور اِس سے اِنکار ممکن نہیں۔ ایک مؤمن سے ایسے اَلفاظ کا صدور مجازِ عقلی
پر محمول کر لینے میں کوئی عذر مانع نہیں۔ صحیح اِسلامی عقیدے کے مطابق جو شخص یہ اِعتقاد رکھے کہ اللہ
تعالی ہی بندوں کا خالق و مالک ہے اور اُسی نے اُنہیں مختلف اَعمال و اَفعال کی اِنجام دہی کی طاقت سے
نوازا ہے، اﷲ ربّ العزّت کے اِختیار میں کسی زِندہ و مُردہ کی خواہش کو کوئی دخل حاصل نہیں اِلاّ یہ کہ
خدا خود اپنی مرضی سے اُس کی خواہش و سفارش کو قبول کرے۔۔۔ ایسا عقیدہ رکھنے والا شخص ہی حقیقت میں
مؤمن و مسلمان ہے۔۔۔ یہی عین توحید ہے اور یہی عین اِسلام، جیسا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے بھی
سیدہ مریم علیہ السلام سے مکالمہ کے دوران اللہ تعالی کے فعل کی نسبت اپنی طرف کر کے مجازِعقلی کا صدور
فرمایا تھا۔ قرآنِ مجید میں جبرئیل علیہ السلام کے اَلفاظ یوں وارِد ہوئے ہیں :
لِأهَبَ لَکِ غُلَاماً زَکِيًّاo
تاکہ میں تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروںo
(مريم، 19 : 19)
جب اللہ تعالی کی نورانی مخلوق کا سردار ایسے مجازی اَلفاظ کی نسبت اپنی طرف کر سکتا ہے اور اللہ ربّ
العزّت خود ان الفاظ کو اپنے کلامِ مجید میں دُہرا سکتا ہے تو ایک بندۂ بشر اگر ایسے ہی اَلفاظ کی نسبت
تاجدارِ انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کر دے تو اِس میں کون سی قباحت ہے؟ ضرورت اِس امر کی ہے
کہ قرآنِ مجید کی حقیقی رُوح تک رسائی اِختیار کی جائے تاکہ مسلمان ایک دُوسرے کی تکفیر کا وطیرہ ترک
کر دیں، اِسی میں اِسلام کا فائدہ ہے اور اِسی میں ہم سب کے اِیمان کی بھلائی ہے۔
حرفِ آخر
یہاں ہم جملہ بحث کو سمیٹتے ہوئے اِبتداء میں تحریر کردہ ایک اہم بات کو اُسلوبِ نو کے ساتھ ایک بار
پھر بیان کرنا چاہیں گے کہ فی زمانہ بعض لوگوں نے آیاتِ قرآنیہ کے ضمن میں حقیقت و مجاز کے درمیان
فرق اور اِعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا ہے۔ اُن کا عقیدہ و نظریہ اَلفاظِ قران کے فقط حقیقی معانی
سے اِستدلال لینے کا ہے۔ چنانچہ وہ مجازی معنی کا جواز تک محل نظر سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ
احادیثِ نبوی اور اَسلاف ائمہ کی قرآنی تعبیرات و تفسیرات سے رُوگرداں ہو کر تفسیر بالرائے کے مُرتکب
ہو رہے ہیں اور عقائدِ اِسلام کے باب میں بدعات پیدا کرنے اور اَلفاظِ قرآنی کے معنی مُرادی سے ہٹ کر
عقائد کی تشریحات وضع کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔ اِعتدال سے ہٹنے والا دُوسرا گروہ ضد میں آ کر مجاز کے
اِستعمال میں کچھ اِس طرح سے زیادتی کا قائل ہوتا چلا گیا ہے کہ اِعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھا
ہے جبکہ اِعتدال ہر حال میں ضروری ہے۔ حقیقت و مجاز کے اِستعمال میں قرآنی اِعتدال کو ملحوظِ خاطر
رکھا جائے تو اِن دونوں اِنتہاؤں میں حائل خلیج کو پاٹ کر اُمت کو پھر سے جسدِ واحد بنایا جا سکتا ہے۔
یہی وطیرہ دینِ حق کی حفاظت اور مقامِ توحید کی حقیقی تعبیر و توجیہہ کے لئے ضروری و کارآمد ہے۔
مآخذ و مراجع
نمبرشمار
کتاب
مصنف / متوفیّ
ناشر / سنِ اشاعت
1
قرآنِ مجید
منزّل من اﷲ
2
صحیح البخاری
اِمام محمد بن اِسمٰعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ، 256ھ
قدیمی کتب خانہ کراچی، 1381ھ
3
الصحیح لمسلم
اِمام مسلم بن الحجاج قشیری رحمۃ اللہ علیہ، 261ھ
قدیمی کتب خانہ کراچی، 1375ھ
4
جامع الترمذی
اِمام محمد بن عیسیٰ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ، 279ھ
فاروقی کتب خانہ
5
سنن ابی داؤد
اِمام ابوداؤد سلیمان بن اَشعث رحمۃ اللہ علیہ، 275ھ
مکتبہ اِمدادیہ ملتان
6
سنن النسائی
اِمام احمد بن شعیب النسائی رحمۃ اللہ علیہ، 303ھ
قدیمی کتب خانہ کراچی
7
سنن اِبنِ ماجہ
اِمام محمد بن یزید القزوینی رحمۃ اللہ علیہ، 273ھ
قدیمی کتب خانہ کراچی
8
مسند احمد بن حنبل
اِمام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ، 241ھ
دارالفکر بیروت، 1398ھ
9
المستدرک
اِمام ابو عبداﷲ محمد الحاکم رحمۃ اللہ علیہ، 405ھ
دارالباز مکہ مکرمہ
10
الترغیب و الترھیب
اِمام زکی الدّین المنذری رحمۃ اللہ علیہ، 656ھ
داراِحیاء التراث العربی بیروت، 1968ء
11
المعجم الاوسط
اِمام سلیمان بن احمد الطبرانی رحمۃ اللہ علیہ، 360ھ
مکتبۃ العارف ریاض، 1407ھ
12
مسند اَبی یعلی
اِمام ابو یعلی الموصلی رحمۃ اللہ علیہ، 307ھ
دار الماعون للتراث بیروت، 1406ھ
13
مجمع الزوائد
اِمام علی بن ابی بکر الھیثمی رحمۃ اللہ علیہ، 807ھ
دار الکتاب العربی بیروت
14
معالم التنزیل
اِمام ابو محمد بن مسعود البغوی رحمۃ اللہ علیہ، 516ھ
دار المعرفۃ بیروت، 1995ء
15
المواھب اللدنیۃ
اِمام احمد بن محمد القسطلانی رحمۃ اللہ علیہ، 911ھ
دار المعرفۃ بیروت، 1973ء
16
دلائل النبوۃ
اِمام احمد بن الحسین البیھقی رحمۃ اللہ علیہ، 458ھ
دارالکتب العلمیۃ بیروت، 1980ء
17
الطبقات الکُبریٰ
اِمام محمد بن سعد رحمۃ اللہ علیہ، 230ھ
دار الطباعۃ بیروت، 1398ھ
18
البدایۃ و النھایۃ
اِمام اِسمٰعیل بن کثیر رحمۃ اللہ علیہ، 774ھ
مکتبۃ المعارف بیروت، 1977ء
19
الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ
اِمام احمد بن علی بن حجر العسقلانی رحمۃ اللہ علیہ، 852ھ
داراِحیاء التراث العربی بیروت، 1328ھ
20
مفاہیم یجب ان تصحح
علامہ محمد بن علوی المالکی
مکہ مکرمہ
21
المفردات
اِمام راغب اِصفھانی رحمۃ اللہ علیہ، 502ھ
نور محمد کتب خانہ کراچی
http://facebook.com/soutulauliyajk
Follow Rediff Deal ho jaye! to get exciting offers in your city everyday. |
No comments:
Post a Comment